صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
52. بَابُ الصِّرَاطُ جَسْرُ جَهَنَّمَ:
باب: صراط ایک پل ہے جو دوزخ پر بنایا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 6574
قَالَ عَطَاءٌ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يُغَيِّرُ عَلَيْهِ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَوْلِهِ:" هَذَا لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: حَفِظْتُ: مِثْلُهُ مَعَهُ.
عطاء نے بیان کیا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے اس ٹکڑے تک پہنچے کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میں نے یوں ہی سنا ہے، یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6574 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6574
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں پروردگار کی دو صفات کا اثبات ہے۔
ایک آنے کا، دوسری صورت کا۔
متکلمین ایسی صفات کی دور ازکار تاویلات کرتے ہیں مگر اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسکتا ہے، جا سکتا ہے، اترسکتا ہے، چڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح جس صورت میں چاہے تجلی فرماسکتا ہے۔
اس کو سب طرح کی قدرت ہے۔
بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفت سے مشابہت نہیں دے سکتے۔
اس حدیث میں بہت سی باتیں بیان میں آئی ہیں۔
پل صراط کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں دوسری روایت میں ہے کہ اس پل پر سے پار ہونے والے سب سے پہلے میں ہوں گا اور میری امت ہوگی۔
پل صراط پر سعدان نامی درخت کے جیسے آنکڑوں کا ذکر ہے جو سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے، مقدار میں نہیں کیوں کہ مقدار میں تو وہ بہت بڑے ہوں گے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
سعدان عرب کی ایک گھاس کا نام ہے جس میں ٹیڑھے منھ کے کانٹے ہوتے ہیں۔
آگے روایت میں دوزخ پر نشان سجدہ اور مقام سجدہ کے حرام ہونے کا ذکر ہے۔
سجدے کے مقام پیشانی دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں قدم یا صرف پیشانی مراد ہے۔
مطلب یہ ہے کہ سارابدن جل کر کوئلہ ہوگیا ہوگا مگر یہ مقامات سجدہ سالم ہوں گے جن کو دیکھ کر فرشتے پہچان لیں گے کہ یہ موحد مسلمان نمازی تھے۔
آہ بے نمازی مسلمانوں کے پاس کیا علامت ہوگی جس کی وجہ سے انہیں پہچان کر دوزخ سے نکالا جائے؟ آگے روایت میں سب کے بعدجنت میں جانے والے ایک شخص کا ذکر ہے یہ وہ ہوگا جو دوزخ میں سات ہزار برس گزار چکا ہوگا۔
اس کے بعد نکل کر بایں صورت جنت میں جائے گا۔
اسی شخص سے متعلق اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا ذکر ہے۔
یہ بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔
جس کا انکار یا تاویل اہل حدیث نہیں کرتے، نہ اسے مخلوق کی ہنسی سے مشابہت دیتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6574
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6574
حدیث حاشیہ:
(1)
پل صراط اور اس سے گزرنے کی کیفیت کے متعلق درج ذیل احادیث میں وضاحت ہے:
٭ جب میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی تو امانت اور صلہ رحمی کو بھیجا جائے گا، وہ پل صراط کے دونوں جانب کھڑی ہو جائیں گی، پھر تم میں سے پہلا بجلی کی ماند گزر جائے گا۔
راوئ حدیث کہتے ہیں:
میں نے کہا:
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کی کیا صورت ہو گی؟ آپ نے فرمایا:
''کیا تم نے بجلی نہیں دیکھی وہ آنکھ جھپکنے میں گزرتی ہے اور واپس آ جاتی ہے، پھر ہوا کے چلنے کی طرح، پھر پرندے کی طرح اور تیز چلنے والے آدمیوں کی طرح ان کے اعمال انہیں لے کر چلیں گے۔
اور تمہارے نبی پل صراط پر کھڑے ہوں گے۔
وہ کہہ رہے ہوں گے:
اے میرے رب! سلامتی عطا فرما، سلامتی عطا فرما، حتی کہ بندوں کے اعمال عاجز آ جائیں گے یہاں تک کہ ایک آدمی آئے گا جو چلنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو گا بلکہ وہ سرین کے بل گھسیٹ رہا ہو گا۔
'' آپ نے فرمایا:
''پل صراط کے دونوں کناروں پر آنکڑے ہوں گے۔
وہ اس بات پر مامور ہوں گے کہ جس کے متعلق حکم دیا جائے گا وہ اسے اچک لیں گے۔
کچھ لوگ زخمی ہوں گے، نجات پانے والے ہوں گے اور کچھ جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔
اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت ہو گی۔
'' (صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 482 (195)
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''تمام لوگ آگ (پل صراط)
پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے۔
ان میں سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند، پھر پیدل چلنے والے کی مانند اس پل کو عبور کریں گے جو جہنم پر نصب ہو گا۔
'' (جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث: 3159) (2)
پل صراط کے نیچے جہنم ہو گی۔
اہل جہنم کی پست و بلند آوازیں، دھواں اور جلن نظر آئے گی۔
لوگ پل پر سے پھسلتے اور جہنم میں گرتے نظر آئیں گے۔
یہ بے انتہا مشکل منظر ہو گا، اس لیے اپنے عقیدے اور عمل کی اصلاح کریں۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6574