(مرفوع) حدثنا ابو السائب سلم بن جنادة بن سلم الكوفي، حدثنا احمد بن بشير، عن عمر بن حمزة، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد: " اللهم العن ابا سفيان، اللهم العن الحارث بن هشام، اللهم العن صفوان بن امية، قال: فنزلت: ليس لك من الامر شيء او يتوب عليهم او يعذبهم سورة آل عمران آية 128 فتاب الله عليهم فاسلموا فحسن إسلامهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب يستغرب من حديث عمر بن حمزة، عن سالم، عن ابيه، وقد رواه الزهري، عن سالم، عن ابيه، لم يعرفه محمد بن إسماعيل من حديث عمر بن حمزة، وعرفه من حديث الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ: " اللَّهُمَّ الْعَنْ أَبَا سُفْيَانَ، اللَّهُمَّ الْعَنْ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ الْعَنْ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ سورة آل عمران آية 128 فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَسْلَمُوا فَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، لَمْ يَعْرِفْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، وَعَرَفَهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمایا: ”اے اللہ! لعنت نازل فرما ابوسفیان پر، اے اللہ! لعنت نازل فرما حارث بن ہشام پر، اے اللہ! لعنت نازل فرما صفوان بن امیہ پر“، تو آپ پر یہ آیت «ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم» نازل ہوئی۔ تو اللہ نے انہیں توبہ کی توفیق دی، انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام بہترین اسلام ثابت ہوا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ روایت «عمر بن حمزة عن سالم عن أبيه» کے طریق سے غریب ہے، ۳- زہری نے بھی اسے سالم سے اور انہوں نے بھی اپنے باپ سے روایت کیا ہے، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو عمر بن حمزہ کی روایت سے نہیں جانا بلکہ زہری کی روایت سے جانا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/المغازي 21 (4069) (تحفة الأشراف: 6780) (صحیح) (سند میں عمر بن حمزہ بن عبد اللہ بن عمر ضعیف راوی ہیں، لیکن بخاری کی مذکورہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: (3004) إسناده ضعيف عمر بن حمزة ضعيف (في غير صحيح مسلم) وضعفه الجمھور وحديث البخاري (4069) يغني عنه
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1079
´دعائے قنوت میں منافقین پر لعنت بھیجنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت آپ نے فجر کی نماز میں آخری رکعت سے اپنا سر اٹھایا کچھ منافقوں پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا، آپ کہہ رہے تھے: «اللہم العن فلانا وفلانا»”اے اللہ! تو فلاں فلاں کو رسوا کر“، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ليس لك من الأمر شىء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون»”اے محمد! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں“(آل عمران: ۱۲۸)۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1079]
1079۔ اردو حاشیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ فأنزل اللہ راوی کا ادراج ہے، اس لیے اس آیت کو قنوت نازلہ سے رکنے کا سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 286/8، حدیث: 4560۔ مزید دیکھیے: فوائد حدیث: 1071]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1079
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3941
´قبائل غفار، اسلم، جہینہ اور مزنیہ کے فضائل و مناقب کا بیان` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسلم کو اللہ صحیح سالم رکھے، غفار کو اللہ بخشے اور عصیہ (قبیلہ) نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3941]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں، قبیلہ اسلم، اورغفارکی منقبت ہے، جبکہ قبیلہ ”عصیہ“ کی برائی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3941
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6434
حضرت خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دعاکی،"اے اللہ!بنولحیان رعل،ذکوان اور عصیہ پر جنھوں نے اللہ اور اس کےرسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی،لعنت بھیج،غفار کی اللہ مغفرت فرمائے اور اسلم کو اللہ سلامت رکھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6434]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بنو لحیان، رعل، ذکوان اور عصیۃ، چار قبائل نے بئر معونہ کے واقعہ میں ستر (70) قراء، صحابہ کرام کے ساتھ بدعہدی کرتے ہوئے ان کو شہید کر دیا تھا، اس لیے آپ نے ان کے خلاف ایک ماہ تک دعاء قنوت کی۔ "
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6434
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3513
3513. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پرفرمایا: ”قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ قبیلہ اسلم کو سلامتی دے اور قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3513]
حدیث حاشیہ: قبیلہ غفار والے عہد جاہلیت میں حاجیوں کا مال چراتے، چوری کرتے، اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو معاف کردیا اور قبیلہ عصیہ والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے عہد کرکے غداری کی اور بئر معونہ والوں کو شہید کردیا، شہداء بیر معونہ کے حالات کسی دوسرے مقام پر تفصیل سے مذکور ہوچکے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3513
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3513
3513. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پرفرمایا: ”قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ قبیلہ اسلم کو سلامتی دے اور قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3513]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ غفار اور قبیلہ اسلم کے لیے دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اچھی توفیق دے اور انھیں سلامت رکھے کیونکہ یہ دونوں قبیلوں جنگ وجدال کے بغیر مسلمان ہوئے تھے۔ قبیلہ غفار کے متعلق یہ معروف تھا کہ وہ حاجیوں کی چوری کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی تاکہ آئندہ ان سے یہ تہمت جاتی رہے اور ان کے پہلے گناہ معاف ہوجائیں۔ قبیلہ عصیہ والوں نے بئر معونہ پر سترقاریوں کو دھوکے سے شہید کیاتھا جس سے رسول اللہ ﷺ انتہائی صدمے سے دوچار ہوئے تھے اور مہینہ بھر ان کے خلاف بددعا کرتے رہے، اس لیے فرمایا: ”عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے۔ “(عمدة القاري: 261/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3513
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7346
7346. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز فجر میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے: ”اے اللہ! ہمارے رب! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔“ یعنی آخری رکعت میں، پھر کہتے: ”اے اللہ! فلاں فلاں کو اپنی رحمت دور کردے۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ کو اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں، اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے۔ بلاشبہ وہ ظالم ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7346]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے معاملات اور ان کے متعلق فیصلے کرنا صرف میرے ہاتھ میں ہے۔ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ کافروں کو توبہ کی توفیق دوں یا انھیں دنیا میں قتل کی سزا دوں یا آخرت میں دردناک عذاب دوں، یہ سب میرے اختیار میں ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کتاب الاعتصام میں اس لیے پیش کیا ہے کہ اگرانھیں ایمان کا یقین ہوتا تو اس لعنت زدگی سے بچ جاتے۔ یہ آیت ایک دوسری آیت کے ہم معنی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بلاشبہ آپ نہیں ہدایت دے سکتے جسے آپ چاہیں اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ “(البقرة: 272) اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو بالفعل ہدایت دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صرف ان کی رہنمائی کرنا ہے، یعنی مطلب کو واضح کر کے ان تک پہنچانا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7346