(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن عثمان بن المغيرة، عن علي بن ربيعة، عن اسماء بن الحكم الفزاري، قال: سمعت عليا، يقول: إني كنت رجلا إذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا نفعني الله منه بما شاء ان ينفعني، وإذا حدثني رجل من اصحابه استحلفته، فإذا حلف لي صدقته، وإنه حدثني ابو بكر وصدق ابو بكر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من رجل يذنب ذنبا ثم يقوم فيتطهر، ثم يصلي ثم يستغفر الله إلا غفر له، ثم قرا هذه الآية والذين إذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسهم ذكروا الله فاستغفروا سورة آل عمران آية 135 إلى آخر الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث قد رواه شعبة وغير واحد، عن عثمان بن المغيرة، فرفعوه ورواه مسعر، وسفيان، عن عثمان بن المغيرة فلم يرفعاه، وقد رواه بعضهم، عن مسعر فاوقفه ورفعه بعضهم، ورواه سفيان الثوري، عن عثمان بن المغيرة فاوقفه، ولا نعرف لاسماء بن الحكم حديثا إلا هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي، وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا سورة آل عمران آية 135 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَرَفَعُوهُ وَرَوَاهُ مِسْعَرٌ، وَسُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مِسْعَرٍ فَأَوْقَفَهُ وَرَفَعَهُ بَعْضُهُمْ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَأَوْقَفَهُ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا إِلَّا هَذَا.
اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی تو اللہ نے مجھے جتنا فائدہ پہنچانا چاہا پہنچایا، اور جب مجھ سے آپ کا کوئی صحابی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا پھر جب وہ میرے کہنے سے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا۔ اور بیشک مجھ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے حدیث بیان کی اور بالکل سچ بیان کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ”جو کوئی بھی شخص کوئی گناہ کرتا ہے پھر وہ کھڑا ہوتا ہے پھر پاکی حاصل کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے، اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے بخش دیتا ہے“، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله»۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو شعبہ اور دیگر کئی لوگوں نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت کیا ہے جب کہ مسعر اور سفیان نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔ اور بعض لوگوں نے اسے مسعر سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ اور بعض لوگوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور سفیان ثوری نے عثمان بن مغیرہ سے موقوفاً روایت کیا ہے، ۲- اسماء بن حکم سے اس روایت کے سوا کوئی دوسری روایت ہم نہیں جانتے۔
وضاحت: ۱؎: ”جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں“(آل عمران: ۱۳۵)۔
ما من عبد يذنب ذنبا فيحسن الطهور ثم يقوم فيصلي ركعتين ثم يستغفر الله إلا غفر الله له ثم قرأ هذه الآية والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3006
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں (آل عمران: 135)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3006
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 1521
´صلاۃ التوبہ` «. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو گناہ کرے پھر اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرے، پھر استغفار کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف نہ کر دے . . .“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر: 1521]
فقہ الحدیث: انسان خطا کا پتلا ہے، بھولنا اس کی فطرت اور و دیعت میں شامل ہے، مگر مومن کا شیوہ ہے کہ غلطی پر نادم ہو کر اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے، کافر و ظالم کا وطیرہ ہے کہ وہ گناہوں پر مصر رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو مغفرت اور معافی کی طرف بلاتا ہے، جو اس کے در پر حاضر ہو جائے وہ نہ صرف اسے غفور بلکہ رحیم پاتا ہے، ہمارے اسلاف کی سنت رہی ہے کہ جب ان سے بھول ہوئی، فوراً رجوع الی اللہ کرتے۔ ❀ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: «ما من عبد يذنب ذنبا فيحسن الطهور ثم يقوم فيصلي ركعتين، ثم يستغفر الله إلا غفر له، ثم قرأ هٰذه الآية: ”والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله فاستغفروا لذنوبهم“»[آل عمران: 135 الآية .] ”بندہ گناہ کر بیٹھے، پھر اچھی طرح وضو کر کے کھڑا ہو جائے، دو رکعت ادا کرے، اللہ سے معافی کا سوال کرے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ہے، آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وہ لوگ جب برائی یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔“[مسند الإمام أحمد: 10/1، سنن أبى داو، د: 1521، سنن الترمذي: 604، 3006، السنن الكبريٰ للنسائي: 11078، عمل اليوم والليلة للنسائي: 417، سنن ابن ماجة: 1395، شعب الايمان للبيهقي: 7079، وسنده، حسن] اس حدیث کو: ◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ (623) نے ”صحیح“ کہا ہے۔ ◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن“ کہا ہے۔ ◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهٰذا الحديث طريقه، حسن وأرجو أن يكون صحيحا .» ”اس حدیث کی ”سند حسن“ ہے اور امید ہے یہ ”صحیح“ ہو گی۔“[الكامل فى ضعفاء الرجال: 431/1] ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث ”جید الاسناد“ ہے۔ [تهذيب التهذيب: 235/1] ◈ حافظ علائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: «حديث ثابت»”یہ حدیث ثابت ہے۔“[جامع التحصيل فى أحكام المراسيل، ص: 57] ◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: «اسناده، حسن»”اس کی سند حسن ہے۔“[تذکرۃ الحفاظ: 11/1] ◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [تفسیر ابن کثیر: 1/407] نے اس کو ”حسن“ کہا ہے۔ ↰ اسماء بن حکم جمہور کے نزدیک «حسن الحديث» ہے۔
محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 36114
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1521
´توبہ و استغفار کا بیان۔` اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں ایسا آدمی تھا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو جس قدر اللہ کو منظور ہوتا اتنی وہ میرے لیے نفع بخش ہوتی اور جب میں کسی صحابی سے کوئی حدیث سنتا تو میں اسے قسم دلاتا، جب وہ قسم کھا لیتا تو میں اس کی بات مان لیتا، مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو گناہ کرے پھر اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرے، پھر استغفار کرے تو اللہ اس کے گناہ معاف نہ کر دے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله *** إلى آخر الآية»۱؎”جو لوگ برا کام کرتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں پھر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔۔۔ آیت کے اخیر تک۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1521]
1521. اردو حاشیہ: ➊ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے احادیث کے سلسلے میں قسم لینا اعتماد مزید کےلئے ہوتا تھا۔ اور فرمان نبی ﷺ پر اسی وقت عمل واجب ہوتا ہے۔ جب وہ کامل شروط کے ساتھ صحیح ثابت ہو۔ ➋ اس قدر اہتمام کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قسم لینے کی جرءت نہ کرتے تھے۔ اس میں حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرتبے کی بلندی ان کا احترام ان کے صدق پر گہرا اعتماد اور ان کے باہمی بردرانہ روابط کا شاندار ثبوت ہے۔ ➌ توبہ واستغفار کی نیت سے نماز مستحب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1521
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1395
´نماز گناہوں کا کفارہ ہے۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو جتنا اللہ چاہتا اس سے مجھے نفع دیتا، اور جب کوئی اور مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا، جب وہ قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی، وہ سچے تھے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور دو رکعتیں پڑھتا ہے“، مسعر کی روایت میں ہے: ”پھر نماز پڑھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1395]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرنے میں احتیاط اور صحیح غلط میں امتیاز کا عمل صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے شروع ہوا ہے۔
(2) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لئے قسم نہیں لیتے تھے کہ انھیں صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی روایت پر یقین نہیں تھا۔ بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے لوگ حدیث کی اہمیت کو محسوس کریں۔ اور وہی حدیث بیان کریں جو انھیں اچھی طرح یاد ہو۔ اس کے علاوہ یہ فائدہ بھی پیش نظر تھا۔ کہ اگر وہ حدیث کسی کو سنایئں تو پورے اعتماد سے سنایئں کہ حدیث صحیح ہے۔
(3) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت پراتنا یقین تھا کہ ان کی سنائی ہوئی حدیث بے چون وچرا تسلیم کر لیتے تھے۔
(4) وضو اور نماز گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں۔
(5) نماز کے باوجود دل میں نادم ہوتے ہوئے اللہ سے مغفرت کی دعا کرنا ضروری ہے۔ البتہ بعض چھوٹے گناہ صرف وضو سے یا صرف نماز سے بھی معاف ہوجاتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1395
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1
1- اسماء بن حکم بن فزاری بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کوئی حدیث سنتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے مطابق مجھے اس جو نفع دینا ہوتا تھا اللہ تعالیٰ مجھے وہ نفع دے دیتا تھا، اور جب کوئی دوسرا شخص مجھے کوئی حدیث سناتا تھا، تو میں اس سے حلف لیتا تھا، جب وہ میرے سامنے حلف اٹھا لیتا، تو میں اس کی بات کی تصدیق کر دیتا تھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1]
فائدہ: اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حدیث کو لینے یا اس کو آگے بیان کرنے میں مکمل احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ احتیاط خصوصاً حدیث لینے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی سے شروع ہو گئی تھی، اب اہل علم نے اس احتیاط کو چھوڑ دیا ہے، اور حدیث و علوم حدیث کی طرف توجہ چھوڑ دی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وضو، نماز اور استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1