الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3513
3513. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پرفرمایا: ”قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔ قبیلہ اسلم کو سلامتی دے اور قبیلہ عصیہ نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3513]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ غفار اور قبیلہ اسلم کے لیے دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اچھی توفیق دے اور انھیں سلامت رکھے کیونکہ یہ دونوں قبیلوں جنگ وجدال کے بغیر مسلمان ہوئے تھے۔
قبیلہ غفار کے متعلق یہ معروف تھا کہ وہ حاجیوں کی چوری کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی تاکہ آئندہ ان سے یہ تہمت جاتی رہے اور ان کے پہلے گناہ معاف ہوجائیں۔
قبیلہ عصیہ والوں نے بئر معونہ پر سترقاریوں کو دھوکے سے شہید کیاتھا جس سے رسول اللہ ﷺ انتہائی صدمے سے دوچار ہوئے تھے اور مہینہ بھر ان کے خلاف بددعا کرتے رہے، اس لیے فرمایا:
”عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے۔
“ (عمدة القاري: 261/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3513
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7346
7346. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز فجر میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے: ”اے اللہ! ہمارے رب! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔“ یعنی آخری رکعت میں، پھر کہتے: ”اے اللہ! فلاں فلاں کو اپنی رحمت دور کردے۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ کو اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں، اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے۔ بلاشبہ وہ ظالم ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7346]
حدیث حاشیہ:
1۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لوگوں کے معاملات اور ان کے متعلق فیصلے کرنا صرف میرے ہاتھ میں ہے۔
میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔
کافروں کو توبہ کی توفیق دوں یا انھیں دنیا میں قتل کی سزا دوں یا آخرت میں دردناک عذاب دوں، یہ سب میرے اختیار میں ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کتاب الاعتصام میں اس لیے پیش کیا ہے کہ اگرانھیں ایمان کا یقین ہوتا تو اس لعنت زدگی سے بچ جاتے۔
یہ آیت ایک دوسری آیت کے ہم معنی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بلاشبہ آپ نہیں ہدایت دے سکتے جسے آپ چاہیں اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
“ (البقرة: 272)
اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو بالفعل ہدایت دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صرف ان کی رہنمائی کرنا ہے، یعنی مطلب کو واضح کر کے ان تک پہنچانا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7346