صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
19. بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا} :
19. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور ہم نے اسی طرح تمہیں امت وسط بنا دیا ہے“۔
(19) Chapter. The Statement of Allah: “Thus We have made you [true Muslims, --- real believers of Islamic Monotheism, true followers of Prophet Muhammad (p.b.u.h.) and his Sunna (legal ways)], a just (and the best) nation…” (V.2:143)
حدیث نمبر: Q7349
Save to word اعراب English
وما امر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم اهل العلم.وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ، وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ.
‏‏‏‏ اور اس کے متعلق کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا اور آپ کی مراد جماعت سے اہل علم کی جماعت تھی۔

حدیث نمبر: 7349
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا ابو اسامة، حدثنا الاعمش، حدثنا ابو صالح، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجاء بنوح يوم القيامة، فيقال له: هل بلغت، فيقول: نعم يا رب، فتسال امته هل بلغكم، فيقولون: ما جاءنا من نذير، فيقول: من شهودك؟، فيقول: محمد وامته، فيجاء بكم فتشهدون، ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم: وكذلك جعلناكم امة وسطا سورة البقرة آية 143، قال: عدلا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143"، وعن جعفر بن عون، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُجَاءُ بِنُوحٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ بَلَّغْتَ، فَيَقُولُ: نَعَمْ يَا رَبِّ، فَتُسْأَلُ أُمَّتُهُ هَلْ بَلَّغَكُمْ، فَيَقُولُونَ: مَا جَاءَنَا مِنْ نَذِيرٍ، فَيَقُولُ: مَنْ شُهُودُكَ؟، فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، فَيُجَاءُ بِكُمْ فَتَشْهَدُونَ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا سورة البقرة آية 143، قَالَ: عَدْلًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143"، وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصالح (ذکوان) نے بیان کیا، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا، کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ عرض کریں گے کہ ہاں، اے رب! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے پوچھے گا، تمہارے گواہ کون ہیں؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ ان کے حق میں شہادت دو گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «‏‏‏‏وكذلك جعلناكم أمة وسطا‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا۔ کہا کہ «وسط» بمعنی «عدل» (میانہ رو) ہے، تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔ اسحاق بن منصور سے جعفر بن عون نے روایت کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حدیث بیان فرمائی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Allah's Apostle said, "Noah will be brought (before Allah) on the Day of Resurrection, and will be asked, 'Did you convey the message of Allah?" He will reply, 'Yes, O Lord.' And then Noah's nation will be asked, 'Did he (Noah) convey Allah's message to you?' They will reply, 'No warner came to us.' Then Noah will be asked, 'Who are your witnesses?' He will reply. '(My witnesses are) Muhammad and his followers.' Thereupon you (Muslims) will be brought and you will bear witness." Then the Prophet recited: 'And thus We have made of you (Muslims) a just and the best nation, that you might be witness over the nations, and the Apostle a witness over you.' (2.143)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 448


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري3339سعد بن مالكيجيء نوح وأمته فيقول الله هل بلغت فيقول نعم أي رب فيقول لأمته هل بلغكم فيقولون لا ما جاءنا من نبي فيقول لنوح من يشهد لك فيقول محمد وأمته فنشهد أنه قد بلغ وهو قوله جل ذكره وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
   صحيح البخاري7349سعد بن مالكيجاء بنوح يوم القيامة فيقال له هل بلغت فيقول نعم يا رب فتسأل أمته هل بلغكم فيقولون ما جاءنا من نذير فيقول من شهودك فيقول محمد وأمته فيجاء بكم فتشهدون ثم قرأ رسول الله وكذلك جعلناكم أمة وسطا
   صحيح البخاري4487سعد بن مالكيدعى نوح يوم القيامة فيقول لبيك وسعديك يا رب فيقول هل بلغت فيقول نعم فيقال لأمته هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير فيقول من يشهد لك فيقول محمد وأمته فتشهدون أنه قد بلغ ويكون الرسول عليكم شهيدا
   جامع الترمذي2961سعد بن مالكيدعى نوح فيقال هل بلغت فيقول نعم فيدعى قومه فيقال هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير وما أتانا من أحد فيقال من شهودك فيقول محمد وأمته قال فيؤتى بكم تشهدون أنه قد بلغ فذلك قول الله وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
   جامع الترمذي2961سعد بن مالكوكذلك جعلناكم أمة وسطا قال عدلا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7349 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7349  
حدیث حاشیہ:
حالانکہ مسلمانوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو دنیا میں نہیں دیکھا نہ ان کی امت واولں کو مگر یقین کے ساتھ گواہی دیں گے کیونکہ جو بات اللہ اور رسول کے فرمانے سے اور تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ مثل دیکھی ہوئی بات کے یقینی ہوتی ہے اور دنیا میں بھی ایسی گواہی لی جاتی ہے۔
مثلاً ایک شخص کسی کا بیٹا ہو اور سب لوگوں میں مشہور ہو تو یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ فلاں شخص کا بیٹا ہے حالانکہ اس کو پیدا ہوتے وقت آنکھ سے نہیں دیکھا۔
اس آیت سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امت عادلہ فرمایا اور یہ ممکن نہیں کہ ساری امت کا اجماع نا حق اور باطل پر ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7349   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7349  
حدیث حاشیہ:

ہم لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام یا ان کی امت کونہیں دیکھا مگرقیامت کے دن یقین کےساتھ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اُمت کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا۔
ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے اس حقیقت کا پتا چلا ہے، جو بات تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ دیکھی ہوئی چیز کی طرح ہوتی ہے اور اس کے متعلق گواہی بھی دی جا سکتی ہے۔
مثلاً:
ایک شخص کا بیٹا ہے اور سب لوگوں کو اس کا علم ہوتو وہ اس کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا ہے، حالانکہ کسی نے اسے پیدا ہوتے ہوئے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا۔

اس آیت کریمہ سے بعض حضرات نے حجیت اجماع کو ثابت کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اُمت وَسَط، یعنی عدل پسند فرمایا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ساری اُمت کا اجماع کسی باطل یا ناحق چیز پر ہو جائے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ آیت کریمہ میں اس امت مرحومہ کا وصف "وَسَط" بیان ہوا ہے۔
اس سے مراد ان کا عدل پسند ہونا ہے، اس لیے اہل جہالت اور اہل بدعت قطعاً اس وصف کے لائق نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد حقیقی اہل سنت والجماعت کے لوگ (اہل حدیث)
ہیں اور وہ حقیقی علم شرعی کے حاملین ہیں۔

احادیث میں جماعت سے چمٹے رہنے کا حکم ہے۔
شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس عنوان میں جماعت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی ترغیب ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 387/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7349   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2961  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: «وسط» سے مراد عدل ہے (یعنی انصاف پسند)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2961]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرۃ: 143)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2961   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2961  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: «وسط» سے مراد عدل ہے (یعنی انصاف پسند)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2961]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرۃ: 143)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2961   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4487  
4487. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت نوح ؑ سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور پیغمبر ؑ تم پر گواہ بنیں گے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔ آیت میں لفظ وسط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ:
یہ جملہ حدیث میں داخل ہے راوی کا کلام نہیں ہے۔
وسط کے معنی بہتر کے ہیں۔
عرب لوگ کہتے ہیں۔
فلان وسط في قومه۔
یعنی فلاں اپنی قوم میں سب سے بہتر آدمی ہے۔
ابو معاویہ کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ پر ور دگا ر پوچھے گا تم کو کیسے معلوم ہوا، وہ عرض کریں گے ہمارے رسول کریم ﷺ نے ہم کو خبر دی تھی کہ اگلے پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کے حکم پہنچا دئیے اور ان کی خبر سچی ہے۔
اس حدیث سے یہ قانون نکلا کہ اگر سنی ہوئی بات کا یقین ہوجا ئے تو اس کی گواہی دینا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4487   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3339  
3339. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ اور ان کی امت آئے گی تو اللہ تعالیٰ دریافت فرمائےگا: کیا تم نے انھیں میرا پیغام پہنچادیا تھا؟ حضرت نوح ؑ عرض کریں گے: میں نے ان کو تیرا پیغام پہنچا دیاتھا اسے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا: کیا انھوں نے تمھیں میرا پیغام دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے: نہیں! ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوح ؑ سے دریافت فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے حضرت محمد ﷺ اور آپ کی اُمت کے لوگ میرے گواہ ہیں، چنانچہ وہ(میری امت) اس امر کی گواہی دے گی کہ نوح ؑ نے لوگوں کو اللہ کاپیغام پہنچا دیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اسی طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ وسط کے معنی عدل کے ہیں، یعنی تم عدل و انصاف کے علم بردار ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3339]
حدیث حاشیہ:

قرآن کریم میں ہے۔
آج ہم ان کی زبانوں پر مہر لگادیں گے تاکہ وہ بات نہ کر سکیں۔
(یٰس 36۔
65)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی زبان بندی ہوگی تو وہ اللہ کے حضور کلام کیسے کریں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ کئی قسم کے حالات سے دوچار ہوں گے۔
ایک وقت ایسا ہوگا کہ وہ باتیں کریں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے گے۔

اس حدیث میں بھی حضرت نوح ؑ کا ذکر خیر ہے لہٰذا اسے مذکورہ عنوان کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3339   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4487  
4487. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت نوح ؑ سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور پیغمبر ؑ تم پر گواہ بنیں گے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔ آیت میں لفظ وسط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت سے دریافت کرے گا۔
"تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا۔
؟" وہ عرض کریں گے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی کہ تمام رسولوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔
ان کی خبر صحیح تھی۔
اس پر ہم نے حضرت نوح ؑ کی تصدیق کردی۔
(مسند أحمد: 58/3)

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گواہی کے لیے کسی چیز کا مشاہدہ ضروری نہیں بلکہ کسی امر کے متعلق علم و اطلاع ہو نا ہی کافی ہے وگرنہ اس مات کے لوگ حضرت نوح ؑ کے متعلق کیونکر گواہی دیں گے کہ وہ حق پر ہیں کیا یہ لوگ اس وقت وہاں موجود تھے؟ انھیں اس کا علم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے ہوا اور اس علم کی بنیاد پر انھوں نے گواہی دی۔

واضح رہے کہ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ لفظ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت کی ہے یعنی جس طرح تمھیں سب سے بہتر قبلہ عطا کیا گیا ہے اسی طرح تمھیں تمام امتوں سے افضل بنایا گیا ہے۔
وسط کے ایک معنی اعتدال بھی کیے گئے ہیں یعنی تم معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہو۔
یہ معنی اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے ہیں یعنی دینی معامالات میں نہ تو عیسائیوں کی طرح غلو کا شکار ہیں اور نہ یہودیوں کی طرح تقصیر ہی کے مرتکب ہیں۔
(فتح الباري: 217/8)
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وسط کے یہ معنی مرفوع حدیث کا حصہ ہیں جیسا کہ کتاب الاعتصام میں وسطاً عدلاً کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، الاعضام بالکتاب والسنة، حدیث: 7349)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4487   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.