(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن سعيد بن ابي عروبة، عن سليمان الناجي البصري، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، قال: جاء رجل وقد صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ايكم يتجر على هذا "، فقام رجل فصلى معه. قال: وفي الباب عن ابي امامة , وابي موسى , والحكم بن عمير، قال ابو عيسى: وحديث ابي سعيد حديث حسن، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم من التابعين، قالوا: لا باس ان يصلي القوم جماعة في مسجد قد صلى فيه جماعة، وبه يقول: احمد , وإسحاق وقال آخرون من اهل العلم: يصلون فرادى، وبه يقول: سفيان , وابن المبارك , ومالك , والشافعي: يختارون الصلاة فرادى، وسليمان الناجي بصري ويقال: سليمان بن الاسود، وابو المتوكل اسمه: علي بن داود.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ النَّاجِيِّ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَى هَذَا "، فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّى مَعَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , وَأَبِي مُوسَى , وَالْحَكَمِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْقَوْمُ جَمَاعَةً فِي مَسْجِدٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ جَمَاعَةٌ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلُّونَ فُرَادَى، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ , وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَمَالِكٌ , وَالشَّافِعِيُّ: يَخْتَارُونَ الصَّلَاةَ فُرَادَى، وَسُلَيْمَانُ النَّاجِيُّ بَصْرِيٌّ وَيُقَالُ: سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ: عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد) آیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ۱؎ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوامامہ، ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہوں اس میں (دوسری) جماعت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- اور بعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا نماز پڑھیں، یہی سفیان، ابن مبارک، مالک، شافعی کا قول ہے، یہ لوگ تنہا تنہا نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: ایک روایت میں ہے «ألا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه»”کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے“ کے الفاظ آئے ہیں۔
۲؎: لیکن اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جماعت سے نماز پسند فرمائی، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہو جائے، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی ہوں تو کیوں نہ جماعت کر کے پڑھیں، «فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ»(سورة الحشر: 2) فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 56 (574)، (تحفة الأشراف: 4256)، مسند احمد (3/64، 85)، سنن الدارمی/الصلاة 98 (1408) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (1146)، الإرواء (535)، الروض النضير (979)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 220
اردو حاشہ: 1؎: ایک روایت میں ہے ((أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ))”کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے“ کے الفاظ آئے ہیں۔
2؎: لیکن اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جماعت سے نماز پسند فرمائی، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہو جائے، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی ہوں تو کیوں نہ جماعت کر کے پڑھیں؛ ﴿فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ﴾(سورة الحشر: 2) فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 220
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 574
´مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ”کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 574]
574۔ اردو حاشیہ: ➊ جامع ترمذی میں درج ذیل حدیث کا عنوان ہے۔ «باب ما جاء فى الجماعة فى مسجد قد صلى فيه مرة»”جس مسجد میں ایک بار (باجماعت) نماز ہو چکی ہو اس میں جماعت کا بیان“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین و تابعین کے علاوہ امام احمد و اسحاق بن راہویہ اس کے قائل ہیں۔ مگر کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ دیر سے آنے والے اپنی نماز اکیلے ہی پڑھیں۔ مثلا ابوسفیان، ابن مبارک،امام مالک اور شافعی غالباً ان کی نظر اس پہلو پر ہے کہ لوگوں میں پہلی جماعت کی اہمیت قائم رہے اور وہ اس سے غافل نہ ہوں۔ بہرحال درج ذیل صحیح حدیث سے دوسری جماعت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ➋ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ [ابن ابي شيبة بحواله نيل الاوطار: 171/3] ➌ اکیلے نماز پڑھنے والے کو اپنا امام بنا لینا جائز ہے اگرچہ دوسرے نے اپنی نماز پڑھ لی ہو اور پہلے نے شروع میں امام بننے کی نیت نہ کی ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 574