(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يعلى بن عطاء، حدثنا جابر بن يزيد بن الاسود العامري، عن ابيه، قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم حجته، فصليت معه صلاة الصبح في مسجد الخيف، قال: فلما قضى صلاته وانحرف، إذا هو برجلين في اخرى القوم لم يصليا معه. فقال: " علي بهما " فجيء بهما ترعد فرائصهما، فقال: " ما منعكما ان تصليا معنا؟ " فقالا: يا رسول الله إنا كنا قد صلينا في رحالنا، قال: " فلا تفعلا إذا صليتما في رحالكما، ثم اتيتما مسجد جماعة فصليا معهم، فإنها لكما نافلة "، قال: وفي الباب عن محجن الديلي، ويزيد بن عامر، قال ابو عيسى: حديث يزيد بن الاسود حديث حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اهل العلم، وبه يقول سفيان الثوري، الشافعي , واحمد , وإسحاق، قالوا: إذا صلى الرجل وحده ثم ادرك الجماعة، فإنه يعيد الصلوات كلها في الجماعة، وإذا صلى الرجل المغرب وحده ثم ادرك الجماعة، قالوا: فإنه يصليها معهم ويشفع بركعة، والتي صلى وحده هي المكتوبة عندهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّتَهُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ، قَالَ: فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ وَانْحَرَفَ، إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَى الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَهُ. فَقَالَ: " عَلَيَّ بِهِمَا " فَجِيءَ بِهِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا، فَقَالَ: " مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا؟ " فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا، قَالَ: " فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا، ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ، فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مِحْجَنٍ الدِّيلِيِّ، وَيَزِيدَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ وَحْدَهُ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّهُ يُعِيدُ الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا فِي الْجَمَاعَةِ، وَإِذَا صَلَّى الرَّجُلُ الْمَغْرِبَ وَحْدَهُ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ، قَالُوا: فَإِنَّهُ يُصَلِّيهَا مَعَهُمْ وَيَشْفَعُ بِرَكْعَةٍ، وَالَّتِي صَلَّى وَحْدَهُ هِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَهُمْ.
یزید بن اسود عامری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کر لی اور ہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا: ”انہیں میرے پاس لاؤ“، وہ لائے گئے، ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔ آپ نے پوچھا: ”تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا نہ کیا کرو، جب تم اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو پھر مسجد آؤ جس میں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو ۱؎ یہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یزید بن اسود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں محجن دیلی اور یزید بن عامر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم میں سے کئی لوگوں کا یہی قول ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب آدمی تنہا نماز پڑھ چکا ہو پھر اسے جماعت مل جائے تو وہ جماعت کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لے۔ اور جب آدمی تنہا مغرب پڑھ چکا ہو پھر جماعت پائے تو وہ ان کے ساتھ نماز پڑھے اور ایک رکعت اور پڑھ کر اسے جفت بنا دے، اور جو نماز اس نے تنہا پڑھی ہے وہی ان کے نزدیک فرض ہو گی۔
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے اسے ظہر، اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ حکم عام ہے ساری نمازیں اس میں داخل ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 219
اردو حاشہ: 1؎: بعض لوگوں نے اسے ظہر، اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ حکم عام ہے ساری نمازیں اس میں داخل ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 219
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 575
´جو شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا ہو پھر وہ جماعت پائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھے۔` یزید بن الاسودخزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، وہ ایک جوان لڑکے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ مسجد کے کونے میں دو آدمی ہیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، تو آپ نے دونوں کو بلوایا، انہیں لایا گیا، خوف کی وجہ سے ان پر کپکپی طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: ”تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“، تو ان دونوں نے کہا: ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے پھر امام کو اس حال میں پائے کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ (بھی) نماز پڑھے، یہ اس کے لیے نفل ہو جائے گی۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 575]
575۔ اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود یہ کہ ازحد متواضع تھے انتہائی بارعب و باہیبت بھی تھے۔ اور اس کی واحد وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا تقویٰ اور اس کی خشیت تھی۔ ➋ جس نے اکیلے نماز پڑھی ہو اور اس کو جماعت مل جائے، تو وہ امام کے ساتھ مل کر دوبارہ نماز پڑھے۔ ➌ خواہ نماز کوئی سی ہو، ظاہر الفاظ حدیث سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ ➍ معلوم ہوا کہ شرعی سبب کے باعث فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ ➎ اس میں یہ بھی ہے کہ اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے اگرچہ نماز سے پڑھنا ضروری ہے۔ ➏ یہ بھی ثابت ہوا کہ پہلی نماز فرض اور دوسری نفل ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 575
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 859
´تنہا نماز پڑھنے والے کا فجر کی نماز جماعت کے ساتھ دہرانے کا بیان۔` یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد خیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز میں موجود تھا، جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے آخر میں دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے، آپ نے فرمایا: ”ان دونوں کو میرے پاس لاؤ“، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا، ان کے مونڈھے (گھبراہٹ سے) کانپ رہے تھے وہ گھبرائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ تو ان دونوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، جب تم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکو، پھر مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو تم ان کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہو جائے گی۔“[سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 859]
859 ۔ اردو حاشیہ: ➊ مسجد خیف منیٰ میں ہے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ منسوخ ہونے کا احتمال نہیں۔ ➋ ”کانپ رہا تھا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرتی طور پر رعب اور ہیبت تھی۔ جو نیا آدمی آپ کو دیکھتا تھا یا جو کبھی کبھار دیکھتا تھا، مرعوب ہو جاتا تھا۔ انہیں تو بلایا گیا تھا بلکہ پکڑ کر لایا گیا تھا، لہٰذا مرعوب ہونے کے علاوہ ان کا خوف زدہ ہونا قرین قیاس تھا۔ ➌ اس روایت میں صریح طور پر فجر کی نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اکیلا رہنے والا جماعت پائے تو دوبارہ پڑھے، لہٰذا اس صریح روایت کو چھوڑ کر ایک عام روایت سے استدلال کرنا خلاف انصاف ہے۔ ➍ ”نفل ہو جائے گی۔“ کون سی؟ اسی میں اختلاف ہے، اسی لیے محققین نے کہا: یہ اللہ کے سپرد ہے جسے چاہے فرض بنائے جسے چاہے نفل۔ لیکن ظاہر ہے کہ پہلی نماز جب پڑھی تھی تو وہ فرض تھی اور فرض ہی کی نیت سے پڑھی تھی، اس لیے دوسری نماز ہی نفل ہونی چاہیے۔ احادیث کی روشنی میں اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 859
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 319
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان` سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ایسے دو آدمیوں پر نظر پڑی جنہوں نے نماز (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنے پاس بلوایا۔ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو (خوف کے مارے) ان کے شانے کانپ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ” تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ “ دونوں نے عرض کیا ہم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہیں۔ فرمایا ” ایسا مت کیا کرو۔ اگر تم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہو پھر تم امام کو پا لو اور امام نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ تم نماز پڑھو، یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔ “ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ بھی اسی کے ہیں۔ اس کے علاوہ تینوں یعنی ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 319»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن صلي في منزله ثم أدرك...، حديث:575، والترمذي، الصلاة، حديث:219، والنسائي، الإمامة، حديث:859، وابن حبان (الإحسان):3 /50، حديث:1563.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص پہلے نماز پڑھ چکا ہو اور پھر جماعت کے ساتھ شامل ہونے کا موقع بھی میسر آجائے تو اسے جماعت کے ساتھ شامل ہونا چاہیے‘ خواہ کوئی نماز ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف ظہر اور عشاء دو نمازوں میں ایسا کر سکتا ہے باقی میں نہیں‘ لیکن جب دوبارہ نماز پڑھنے کی دلیل یہی حدیث ہے تو پھر باقی نمازیں دوبارہ کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ» ان کی کنیت ابوجابر ہے۔ سوائی عامری ہیں۔ ان کے قبیلے کے قریش سے حلیفانہ تعلقات تھے۔ مشہور صحابی ہیں۔ طائف میں فروکش ہوئے۔ ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ اسے ان کے بیٹے جابر رحمہ اللہ نے ان سے روایت کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 319