(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: " إنما صلى النبي صلى الله عليه وسلم الركعتين بعد العصر، لانه اتاه مال فشغله عن الركعتين بعد الظهر، فصلاهما بعد العصر، ثم لم يعد لهما "، وفي الباب عن عائشة , وام سلمة , وميمونة , وابي موسى. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حسن، وقد روى غير واحد عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه صلى بعد العصر ركعتين، وهذا خلاف ما روي عنه انه نهى عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، وحديث ابن عباس اصح، حيث قال: لم يعد لهما، وقد روي عن زيد بن ثابت، نحو حديث ابن عباس، وقد روي عن عائشة في هذا الباب روايات، روي عنها ان النبي صلى الله عليه وسلم ما دخل عليها بعد العصر إلا صلى ركعتين، وروي عنها، عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه نهى عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، وبعد الصبح حتى تطلع الشمس، والذي اجتمع عليه اكثر اهل العلم على كراهية الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، وبعد الصبح حتى تطلع الشمس، إلا ما استثني من ذلك، مثل الصلاة بمكة بعد العصر حتى تغرب الشمس، وبعد الصبح حتى تطلع الشمس بعد الطواف، فقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم رخصة في ذلك، وقد قال به: قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق، وقد كره قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم الصلاة بمكة ايضا بعد العصر وبعد الصبح، وبه يقول سفيان الثوري , ومالك بن انس , وبعض اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " إِنَّمَا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، لِأَنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ فَشَغَلَهُ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ لَهُمَا "، وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَأُمِّ سَلَمَةَ , وَمَيْمُونَةَ , وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، وَهَذَا خِلَافُ مَا رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَصَحُّ، حَيْثُ قَالَ: لَمْ يَعُدْ لَهُمَا، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، نَحْوُ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا الْبَابِ رِوَايَاتٌ، رُوِيَ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دَخَلَ عَلَيْهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَرُوِيَ عَنْهَا، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَالَّذِي اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى كَرَاهِيَةِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، إِلَّا مَا اسْتُثْنِيَ مِنْ ذَلِكَ، مِثْلُ الصَّلَاةِ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ بَعْدَ الطَّوَافِ، فَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُخْصَةٌ فِي ذَلِكَ، وَقَدْ قَالَ بِهِ: قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمُ الصَّلَاةَ بِمَكَّةَ أَيْضًا بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَبَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، اس لیے کہ آپ کے پاس کچھ مال آیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتیں پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا تو آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھا پھر آپ نے انہیں دوبارہ نہیں پڑھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ام سلمہ، میمونہ اور ابوموسیٰ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- دیگر کئی لوگوں نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے عصر بعد دو رکعتیں پڑھیں یہ اس چیز کے خلاف ہے جو آپ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، ۴- ابن عباس والی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے دوبارہ ایسا نہیں کیا، سب سے زیادہ صحیح ہے، ۵- زید بن ثابت سے بھی ابن عباس ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے، ۶- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی کئی حدیثیں مروی ہیں، نیز ان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب بھی ان کے یہاں عصر کے بعد آتے دو رکعتیں پڑھتے، ۷- نیز انہوں نے ام سلمہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعد جب تک نکل نہ آئے نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ ۸- اکثر اہل علم کا اتفاق بھی اسی پر ہے کہ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعد جب تک نکل نہ آئے نماز پڑھنا مکروہ ہے سوائے ان نمازوں کے جو اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً مکہ میں عصر کے بعد طواف کی دونوں رکعتیں پڑھنا یہاں تک سورج ڈوب جائے اور فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اس سلسلے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے رخصت مروی ہے، صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے یہی کہا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم نے عصر اور فجر کے بعد مکہ میں بھی نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، سفیان ثوری، مالک بن انس اور بعض اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے مروی روایات «ما ترك النبي صلى الله عليه وسلم السجدتين بعد العصر عندي قط»، «ما تركهما حتى لقى الله»، «وما كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين» کے معارض ہے ان میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے اولاً یہ کہ ابن عباس کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، یا کم از کم عائشہ کی حدیث سے کم تر ہے، دوسرے یہ کہ ابن عباس نے یہ نفی اپنے علم کی بنیاد پر کی ہے کیونکہ آپ اسے گھر میں پڑھتے تھے اس لیے انہیں اس کا علم نہیں ہو سکا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5573) (ضعیف الإسناد) (سند میں عطاء بن السائب اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے، جریر بن عبدالحمید کی ان سے روایت اختلاط کے زمانہ کی ہے، لیکن صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کو ہمیشہ پڑھا اسی لیے ”ثم لم يعد لهما“ ”ان کو پھر کبھی نہیں پڑھا“ کا ٹکڑا منکر ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، وقوله: " ثم لم يعد لهما " منكر
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف عطاء بن المسائب اختلط (د 2819) ولم يحدث به قبل اختلاطه فيما أعلم .
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 184
اردو حاشہ: 1؎: یہ أم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایات ((مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِعِنْدِي قَطُّ))((مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِىَ اللهَ))((وَمَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْتِيْنِي فِيْ يَوْمٍ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ)) کے معارض ہے ان میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے اولاً یہ کہ ابن عباس کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، یا کم از کم عائشہ کی حدیث سے کم تر ہے، دوسرے یہ کہ ابن عباس نے یہ نفی اپنے علم کی بنیاد پر کی ہے کیونکہ آپ اسے گھر میں پڑھتے تھے اس لیے انہیں اس کا علم نہیں ہو سکا تھا۔
نوٹ: (سند میں عطاء بن السائب اخیرعمر میں مختلط ہو گئے تھے، جریر بن عبدالحمید کی ان سے روایت اختلاط کے زمانہ کی ہے، لیکن صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد ان دو رکعتوں کو ہمیشہ پڑھا اسی لیے ((لَمْ يَعُدْ لَهُمَا))”ان کو پھرکبھی نہیں پڑھا“ کا ٹکڑا منکر ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 184