(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن بريدة، عن عبد الله بن مغفل، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بين كل اذانين صلاة لمن شاء ". وفي الباب عن عبد الله بن الزبير. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن مغفل حسن صحيح، وقد اختلف اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة قبل المغرب، فلم ير بعضهم الصلاة قبل المغرب، وقد روي عن غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، انهم كانوا يصلون قبل صلاة المغرب ركعتين بين الاذان والإقامة، وقال احمد , وإسحاق: إن صلاهما فحسن، وهذا عندهما على الاستحباب.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمُ الصَّلَاةَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: إِنْ صَلَّاهُمَا فَحَسَنٌ، وَهَذَا عِنْدَهُمَا عَلَى الِاسْتِحْبَابِ.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو نفلی نماز پڑھنا چاہے اس کے لیے ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان نماز ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام کے درمیان مغرب سے پہلے کی نماز کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں سے بعض کے نزدیک مغرب سے پہلے نماز نہیں، اور صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے، ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں پڑھے تو بہتر ہے، اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔
وضاحت: ۱؎: ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہو جائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے، مشکل سے دو تین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اول وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے نماز مؤخر نہیں ہوتی (صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امر کا صیغہ ہے ”مغرب سے پہلے نماز پڑھو“)۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 185
اردو حاشہ: 1؎: ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعد دو رکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہو جائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے، مشکل سے دو تین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اوّل وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے نماز مؤخرنہیں ہوتی۔ (صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امر کا صیغہ ہے ”مغرب سے پہلے نماز پڑھو“)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 185
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 682
´اذان اور اقامت کے درمیان سنت (نفل نماز) پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذان ۱؎ کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، جو چاہے اس کے لیے۔“[سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 682]
682 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ثابت ہوا کہ ہر اذان و اقامت کے درمیان نفل نماز کا وقفہ ہونا چاہیے۔ جو پڑھنا چاہے وہ کم از کم دو رکعت پڑھ لے اور یہ مغرب کی اذان و اقامت کے درمیان بھی ہو گا۔ ➋ مغرب سے قبل دو رکعتوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیبی حکم کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریر بھی اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے، کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عہد نبوت میں اس پر عمل پیرا تھے، نیز عہد نبوت کے بعد تابعین عظام کے ہاں بھی یہ عمل معمول بہ تھا اور تاحال حاملین کتاب و سنت کے ہاں بتوفیق اللہ بدستور جاری ہے جیسا کہ اس کی تفصیل کتاب المواقیت کے ابتدائیے میں بعنوان ”نماز مغرب سے قبل، اذان اور اقامت کے درمیان، دو رکعت نماز کا استحباب“ میں گزر چکی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ ➌ جہاں مؤکدہ سنتیں ہیں وہاں تو وقفہ ہے ہی، باقی نمازوں میں بھی مستحب ہے۔ احناف مغرب کی نماز میں وقفے کے قائل نہیں کہ اس سے تاخیر ہو جائے گی، حالانکہ چند منٹ کے وقفے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا جب کہ احناف مغرب کی اذان بسا اوقات پانچ پانچ منٹ تاخیر سے کہتے ہیں، بالخصوص رمضان المبارک میں افطاری کے وقت بعض (بریلوی) حنفی مساجد میں صرف افطاری کے اعلان پر اکتفا کیا جاتا ہے، پھر پانچ سات منٹ بعد، حسب ضرورت کھا پی کر، اذان دی جاتی ہے جو کہ قطعاً سنت کے خلاف عمل ہے، اگر اس احتیاط سے نماز میں تاخیر نہیں ہوتی تو ہلکی سی مسنون دو رکعتوں سے کیسے تاخیر ہو گی۔ سنت پر عمل تو برکت و ثواب کا موجب ہے۔ ➍ دو اذانوں سے مراد حقیقی اذانیں نہیں کیونکہ ان کے درمیان تو فرض نمازِ ہوتی ہے اور یہاں «لمن شاء» کے الفاظ ہیں کہ جو پڑھنا چاہے، گویا یہ فرض نماز نہیں، لہٰذا دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 682
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1283
´مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، اس شخص کے لیے جو چاہے۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1283]
1283۔ اردو حاشیہ: ”دو اذانوں“ سے مراد معروف اذان اور اقامت ہے اور ان دونوں کے مابین جن نوافل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی و تاکید کی اور ترغیب دی ہے، انہیں سنن راتبہ (مؤکدہ) کہتے ہیں اور جن کی پابندی نہیں کی انہیں غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1283
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1162
´مغرب سے پہلے کی دو رکعت سنت کا بیان۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا: ”اس کے لیے جو چاہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1162]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بعض اوقات اقامت کو بھی اذان کہہ دیا جاتا ہے۔ جمعے کی پہلی اذان کو اسی مفہوم میں تیسری اذان کہا گیا ہے۔ دیکھئے: (حدیث: 1135) اس حدیث میں بھی اقامت کو اذان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہراذان کے بعد سنتیں پڑھی جایئں گی۔ جیسے ظہر، عصر، عشاء اور فجرسے پہلے اسی طرح مغرب کی اذان کے بعد مغرب کی اذان سے پہلے بھی سنتیں ہیں۔ اور وہ کتنی ہیں؟ صرف دوسنتیں۔ کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ تاہم یہ غیر مؤکدہ ہیں۔ کیونکہ ان کو نبی کریمﷺ نے پڑھنے والے کی چاہت پر چھوڑ دیا ہے۔
(2) یہ نماز اذان ختم ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ جیسے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کے لفظ سے ظاہر ہے۔
(3)(لمن شاء) سے ظاہر ہے کہ یہ سنت غیر مؤکدہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1162
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1940
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہراذان اور تکبیر کے درمیان نماز ہے۔“ آپﷺ نے تین دفعہ فرمایا، اورتیسری دفعہ فرمایا: ”جو چاہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1940]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بخاری شریف کی حضرت عبد اللہ مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا کہ آپﷺ نے یہ بات خصوصی طور پر مغرب کے بارے میں فرمائی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1940
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 627
627. حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔ ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔“ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: اگر کوئی پڑھنا چاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:627]
حدیث حاشیہ: مقصد باب یہ کہ اذان اورتکبیر میں کچھ نہ کچھ فاصلہ ہونا چاہيے۔ کم ازکم اتنا ضروری کہ کوئی شخص دورکعت سنت پڑھ سکے۔ مگر مغرب میں وقت کم ہونے کی وجہ سے فوراً جماعت شروع ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مغرب میں بھی نماز فرض سے پہلے دورکعت سنت پڑھنا چاہے تواس کے لیے اجازت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 627
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:624
624. حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں (اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے۔“ آپ نے تین دفعہ یہ الفاظ کہے، پھر فرمایا: ”یہ نماز اس شخص کے لیے ہے جو پڑھنا چاہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:624]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا ایک اصول ہے کہ بعض اوقات وہ عنوان کے ذریعے سے کسی روایت کی تردید یا تائید کرتے ہیں۔ تائید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ الفاظ حدیث اگرچہ امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہوتے، لیکن مضمون حدیث صحیح ہوتا ہے۔ اس مضمون کو اپنی کسی روایت سے ثابت کرتے ہیں۔ (2) عنوان مذکورہ کا مطلب بھی ایک حدیث کے مضمون کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ کھانے پینے والا اپنی ضروریات اور بول وبراز والا اپنی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوسکے۔ “(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 195) یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، تاہم امام بخاری ؒ کا مقصوداس کے مضمون کو ثابت کرنا ہے، چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ہونا چاہیے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے حتی کہ نماز مغرب جس کا وقت محدود ہوتاہے، وہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگرچہ ایک حدیث میں مغرب کا استثنا آیا ہے، لیکن حفاظ حدیث کی مخالفت کی وجہ سے یہ اضافہ شاذ ہے۔ اس کے علاوہ راوئ حدیث حضرت بریدہ ؓ خود نماز مغرب سے پہلے دورکعت پڑھتے تھے۔ اگر مذکورہ اضافہ محفوظ ہوتا تو کم از کم حضرت بریدہ ان دو رکعات کو نہ پڑھتے، نیز اس روایت کے ایک راوی حیان بن عبداللہ پر بھی محدثین نے کچھ کلام کیا ہے۔ (فتح الباري: 142/2) مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 624
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:627
627. حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔ ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔“ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: اگر کوئی پڑھنا چاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:627]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث کے الفاظ کا ترجمہ بایں طور ہے کہ ہر دو اذان کے درمیان نماز ہے۔ اسے اپنے ظاہر پر محمول کرنا صحیح نہیں، کیونکہ دو اذان کے درمیان تو نماز فرض ہے، جبکہ اس حدیث میں دو اذان کے درمیان نماز پڑھنے کو نماز کے صوابدیدی اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دراصل اس حدیث میں تغلیب کے طور پر اقامت کو اذان سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اذان نماز کے لیے دخول وقت کی اطلاع ہوتی ہے اور اقامت کے ذریعے سے عملی طور پر نماز ادا کرنے کے وقت کی اطلاع دی جاتی ہے، جبکہ اقامت کے ذریعے سے حاضرین کو متنبہ کیا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 141/2)(2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن جوزی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے: یہ حدیث ایک وہم کو دور کرنے کا فائدہ دیتی ہے کہ جس نماز کےلیے اذان دی جاتی ہے۔ شاید اس کے علاوہ اور کوئی نماز جائز نہ ہو جبکہ حدیث مذکور نے اس وہم کو دور کردیا کہ اذان کے بعد نوافل وغیرہ پڑھے جاسکتے ہیں، البتہ اقامت کے متعلق یہی اصول ہے کہ اس کے بعد صرف وہی نماز ہوگی جس کےلیے اقامت کہی گئی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب نماز کےلیے تکبیر کہی جائے تو اس وقت وہی نماز جائز ہوگی جس کے لیے تکبیر کہی گئی ہے۔ (صحیح مسلم،صلاة المسافرین، حدیث: 1644(710)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 627
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 624
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ ہر دو اذانوں (اذان و اقامت) کے درمیان ایک نماز (کا فصل) دوسری نماز سے ہونا چاہیے (تیسری مرتبہ فرمایا کہ) جو شخص ایسا کرنا چاہے۔ [صحيح بخاري ح: 624]
فوائد:
➊ اذان اور نماز کے درمیان وقفے کے متعلق مشہور حدیث وہ ہے جو جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: «اجْعَلْ بَيْنَ أَذَانِكَ وَإِقَامَتِكَ قَدْرَ مَا يَفْرُعُ الآكِلُ مِنْ أَكْلِهِ وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْيه وَالْمُعْتَصِرُ إِذَا دَخَلَ لِقَضَاءِ حَاجَتِهِ»[ترمذي: 195]”(اے بلال!) اپنی اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ رکھو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے والا اپنے پینے سے اور قضائے حاجت والا جو اپنی حاجت کے لیے گیا ہو اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے۔“ مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راویوں میں سے بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عبد المنعم متروک اور یحییٰ بن مسلم مجہول ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث اور اس کی ہم معنی احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ان سب سے صرفِ نظر کر کے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ ضرور ہونا چاہیے کہ اگر کوئی اس میں نفل نماز پڑھنا چاہے تو دو رکعت ضرور پڑھ لے۔ یاد رہے کہ حدیث میں «أَذانَيْنِ» سے مراد اذان اور اقامت ہے، کیونکہ اقامت کے الفاظ بھی وہی ہیں جو اذان کے ہیں اور «صلاة» سے مراد نقل نماز ہے، کیونکہ ”اذانین“ سے مراد اگر دو اذانیں ہی ہوں تو ان کے درمیان تو فرض نماز ہے جو ہر ایک کو پڑھنا لازم ہے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لِمَنْ شَاءَ»”جو چاہے۔“ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ «أَذَانَيْنِ» سے مراد دو اذانیں ہی ہوں، مگر «صَلَاةٌ» سے مراد نفل نماز ہو اور مطلب یہ ہو کہ ہر دو اذانوں کے درمیان فرض نماز کے علاوہ نفل نماز ہے، اس لیے ممنوع اوقات کے علاوہ جو نفل نماز پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔
➋ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث مغرب کی اذان اور اقامت کے لیے نہیں، ان کے کہنے کے مطابق مغرب کی اذان کے بعد نفل پڑھنا جائز نہیں، یہ حدیث صرف دوسری نمازوں کے لیے ہے، کیونکہ مغرب کا وقت بہت کم ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کثرت سے مغرب کی اذان کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں ہے۔ رہی وقت تنگ ہونے کی بات تو نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ ”یہ بات کہ ان دو رکعتوں سے مغرب کے اول وقت سے تاخیر ہوتی ہے، یہ سنت کو پرے پھینک دینے والی فاسد بات ہے۔“ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات مغرب کی نماز میں سورۃ اعراف پڑھا کرتے تھے جو سوا پارے کی سورت ہے، تو کیا مغرب میں اذان کے بعد دو رکعت کی گنجائش بھی نہیں؟ اگر گنجائش ہی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مغرب کا نام لے کر کیوں فرمایا: «صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: لِمَنْ شَاءَ، كَرَاهِيَةَ أَن يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةٌ»[بخاري: 1183]”مغرب کی نماز سے پہلے نماز پڑھو۔“ تیسری دفعہ فرمایا: ”جو چاہئے“ اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ لوگ اسے ضروری طریقہ نہ سمجھ لیں۔“
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 624
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 627
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دو اذانوں (اذان و تکبیر) کے بیچ میں نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔ [صحيح بخاري ح: 627]
فوائد:
➊ اذان اور نماز کے درمیان وقفے کے متعلق مشہور حدیث وہ ہے جو جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: «اجْعَلْ بَيْنَ أَذَانِكَ وَإِقَامَتِكَ قَدْرَ مَا يَفْرُعُ الآكِلُ مِنْ أَكْلِهِ وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْيه وَالْمُعْتَصِرُ إِذَا دَخَلَ لِقَضَاءِ حَاجَتِهِ»[ترمذي: 195]”(اے بلال!) اپنی اذان اور اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ رکھو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے والا اپنے پینے سے اور قضائے حاجت والا جو اپنی حاجت کے لیے گیا ہو اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے۔“ مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راویوں میں سے بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عبد المنعم متروک اور یحییٰ بن مسلم مجہول ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث اور اس کی ہم معنی احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ان سب سے صرفِ نظر کر کے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ ضرور ہونا چاہیے کہ اگر کوئی اس میں نفل نماز پڑھنا چاہے تو دو رکعت ضرور پڑھ لے۔ یاد رہے کہ حدیث میں «أَذانَيْنِ» سے مراد اذان اور اقامت ہے، کیونکہ اقامت کے الفاظ بھی وہی ہیں جو اذان کے ہیں اور «صلاة» سے مراد نقل نماز ہے، کیونکہ ”اذانین“ سے مراد اگر دو اذانیں ہی ہوں تو ان کے درمیان تو فرض نماز ہے جو ہر ایک کو پڑھنا لازم ہے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لِمَنْ شَاءَ»”جو چاہے۔“ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ «أَذَانَيْنِ» سے مراد دو اذانیں ہی ہوں، مگر «صَلَاةٌ» سے مراد نفل نماز ہو اور مطلب یہ ہو کہ ہر دو اذانوں کے درمیان فرض نماز کے علاوہ نفل نماز ہے، اس لیے ممنوع اوقات کے علاوہ جو نفل نماز پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔
➋ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث مغرب کی اذان اور اقامت کے لیے نہیں، ان کے کہنے کے مطابق مغرب کی اذان کے بعد نفل پڑھنا جائز نہیں، یہ حدیث صرف دوسری نمازوں کے لیے ہے، کیونکہ مغرب کا وقت بہت کم ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کثرت سے مغرب کی اذان کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں ہے۔ رہی وقت تنگ ہونے کی بات تو نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ ”یہ بات کہ ان دو رکعتوں سے مغرب کے اول وقت سے تاخیر ہوتی ہے، یہ سنت کو پرے پھینک دینے والی فاسد بات ہے۔“ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات مغرب کی نماز میں سورۃ اعراف پڑھا کرتے تھے جو سوا پارے کی سورت ہے، تو کیا مغرب میں اذان کے بعد دو رکعت کی گنجائش بھی نہیں؟ اگر گنجائش ہی نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مغرب کا نام لے کر کیوں فرمایا: «صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: لِمَنْ شَاءَ، كَرَاهِيَةَ أَن يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةٌ»[بخاري: 1183]”مغرب کی نماز سے پہلے نماز پڑھو۔“ تیسری دفعہ فرمایا: ”جو چاہئے“ اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ لوگ اسے ضروری طریقہ نہ سمجھ لیں۔“
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 627