(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ثابت، عن انس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يغزو بام سليم ونسوة معها من الانصار، يسقين الماء، ويداوين الجرحى "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن الربيع بنت معوذ، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مَعَهَا مِنْ الْأَنْصَارِ، يَسْقِينَ الْمَاءَ، وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم اور ان کے ہمراہ رہنے والی انصار کی چند عورتوں کے ساتھ جہاد میں نکلتے تھے، وہ پانی پلاتی اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ربیع بنت معوذ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: جہاد عورتوں پر واجب نہیں ہے، لیکن حدیث میں مذکور مصالح اور ضرورتوں کی خاطر ان کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حج مبرور ان کے لیے سب سے افضل جہاد ہے، جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں، مشقتیں، تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، مال خرچ کرنا پڑتا ہے، حج و عمرہ میں بھی ان سب مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس لیے عورتوں کو حج و عمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے، اسی بنا پر حج و عمرہ کو عورتوں کے لیے جہاد قرار دیا گیا ہے گویا جہاد کا ثواب اسے حج و عمرہ ادا کرنے کی صورت میں مل جاتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1575
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جہاد عورتوں پر واجب نہیں ہے، لیکن حدیث میں مذکور مصالح اور ضرورتوں کی خاطر ان کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حج مبرور ان کے لیے سب سے افضل جہاد ہے، جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں، مشقتیں، تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، مال خرچ کرنا پڑتا ہے، حج وعمرہ میں بھی ان سب مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس لیے عورتوں کو حج وعمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے، اسی بنا پر حج وعمرہ کو عورتوں کے لیے جہاد قراردیا گیا ہے گویا جہاد کا ثواب اسے حج وعمرہ اداکرنے کی صورت میں مل جاتاہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1575
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2531
´عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیں۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تاکہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2531]
فوائد ومسائل: جہاد میں عورتوں سے مجاہدین کی خدمت کے کام لئے جا سکتے ہیں۔ یہ امور باحجاب ہوکر ادا کیے جا سکتے ہیں۔ لہذا یہ خدمات لینے کے لئے خواتین کی تعلیم وتربیت اور مشق بھی ضروری ہے۔ شرعی تعلیمات کی ر وشنی میں اجنبی مردوں اور عورتوں کو بے حجاب کھلے اختلاط کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بعض لوگ عہد نبوی ﷺ کے اس قسم کے بعض اکا دکا واقعات سے یہ کلیہ اور اصول اخذ کرتے ہیں۔ کہ مردو عورت کے درمیان کسی بھی معاملے میں فرق وامتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لینا چاہیے۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ بھی یکسر غلط ہے۔ اور استدلال بھی بے بنیاد بھلا چند عمر رسیدہ خواتین کو زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور ان کو پانی پلانے جیسی معمولی خدمات کےلئے ان کو ساتھ لے جانے سے مردوزن کی مغربی مساوات اور ہر معاملے میں دوش بدوش کا اثبات کس طرح ممکن ہے؟
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2531
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4682
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں ام سلیم کو ساتھ لے جاتے اور اس کے ساتھ کچھ انصاری عورتیں ہوتیں، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج معالجہ کرتیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4682]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنگی ضرورت کے تحت بڑی عورتوں کو ساتھ لیا جا سکتا ہے، وہ پردہ کے ساتھ ان کے لیے کھانا تیار کر سکتی ہیں، پانی پلاسکتی ہیں اور اپنے شوہروں اور محرموں کی تیمارداری اور زخموں کا علاج کر سکتی ہیں، ضرورت پڑنے پر جسم مس کیے بغیر غیر محرم کا علاج بھی کر سکتی ہیں، لیکن اس قسم کی حدیثوں سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں حصہ لینا، یعنی ان کو اسمبلیوں کی ممبر بنانا، وزیر یا مشیر بنانا اور ان کا سماجی سرگرمیوں کے لیے شمع محفل بننا اور اس کے لیے بھاگ دوڑ کرنا، ائیر ہوسٹس اور نرس بن کر مسلمانوں اور مریضوں کا دل بہلانا، نجی اور سرکاری دفاتر میں اجنبی مردوں کے ساتھ کام کرنا، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا، سیکرٹری اور استقبالیہ کے فرائض انجام دینا، جدید تعلیم کے حصول کے لیے بیرونی ممالک میں جانا اور نیشنل کونسل، آرٹ کونسل، ریڈیو، ٹی وی اور فلم اسٹوڈیو میں کام کرنا یہ کیسے ثابت ہوسکتاہے؟ جبکہ شرعی رو سے عورت کا پورا جسم عورت ہے، جس کا اجنبیوں سے ڈھانپنا ضروری ہے، کیونکہ حجاب اور ستر میں فرق ہے، حجاب کا تعلق پورے جسم سے ہے، جیساسورہ احزاب کی آیات سے ثابت اور ستر کا تعلق، ہاتھ اور چہرے کے علاوہ جسم سے ہے، جیسا کے سورہ نور کی آیات سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے عورت گھر میں، چہرے اورہاتھ ننگے رکھے گی، لیکن جب باہر نکلے گی تو ان کو بھی ڈھانپ لے گی۔ (اس کے لیے مولانا احسن اصلاحی کا پمفلٹ ستر اور حجاب قابل دید ہے۔ )