سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
18. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ، فِي بَيْعَةٍ
18. باب: ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1231
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ". وفي الباب: عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد فسر بعض اهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة، ان يقول: ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على احد البيعين، فإذا فارقه على احدهما فلا باس، إذا كانت العقدة على احد منهما، قال الشافعي: ومن معنى نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة ان يقول: ابيعك داري هذه بكذا، على ان تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك، وجبت لك داري، وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما، على ما وقعت عليه صفقته.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، أَنْ يَقُولَ: أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ، وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَى أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ، فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَى أَحَدِهِمَا فَلَا بَأْسَ، إِذَا كَانَتِ الْعُقْدَةُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمَا، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ مَعْنَى نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ: أَبِيعَكَ دَارِي هَذِهِ بِكَذَا، عَلَى أَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَكَ بِكَذَا، فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُكَ، وَجَبَتْ لَكَ دَارِي، وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو،
۵- شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔

وضاحت:
۱؎: امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔
۲؎: اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15050) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/البیوع 73 (4636)، موطا امام مالک/البیوع 33 (72) (بلاغا) مسند احمد (2/432، 475، 503) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2868)، الإرواء (5 / 149)، أحاديث البيوع

   جامع الترمذي1231عبد الرحمن بن صخربيعتين في بيعة
   سنن النسائى الصغرى4636عبد الرحمن بن صخربيعتين في بيعة

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1231 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1231  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
امام ترمذی نے دوقول ذکرکئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیربھی ذکرکی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینارکے عوض گیہوں خریدلے اورجب ایک ماہ گزرجائے تو جا کر اس سے گیہوں کامطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دومہینے کے وعدے پر دوبوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دوبیع ہوئی۔ 2؎:
اوریہی جہالت بیع کے جائزنہ ہونے کی وجہ ہے گوظاہرمیں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1231   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4636  
´ایک بیع میں دو بیع کرنا یعنی یہ کہے کہ میں ایک چیز تم سے بیچ رہا ہوں اگر نقد لو گے تو سو درہم میں اور ادھار لو گے تو دو سو درہم میں۔۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4636]
اردو حاشہ:
ایک سودے میں دو سودوں کی ایک تفسیر تو مصنف رحمہ اللہ نے خود فرمائی ہے۔ اس کی کچھ بحث حدیث 4615 میں بیان ہو چکی ہے کہ اگر ادھار یا نقد ایک سودے پر بات طے ہو جائے تو نقد و ادھار قیمت کے فرق میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فرق فطری ہے، البتہ اگر کوئی ایک سودا طے نہ ہو، فلاں چیز بیچتا ہوں بشرطیکہ تو مجھے فلاں چیز بیچے۔ یہ جائز نہیں کیونکہ دوسری چیز کی فروخت کی شرط لگا کر ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یہ کی ہے کہ (بائع مشتری کو کہے:) میں تجھے فلاں چیز ادھار سو روپے کی دیتا ہوں اور تجھ سے ابھی نقد اسی روپے کی لیتا ہوں۔ اور اگر اسے چیز کی بجائے 80 روپے دے دے اور سال کے بعد سو روپے وصول کر لے۔ ظاہرہے یہ ایک بیع میں دو سودے ہو رہے ہیں۔ اور یہ صریح سود ہے۔ ایسی بیع فاسد ہو گی کیونکہ یہ در حقیقت بیع ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہے بلکہ اسی روپے دے کر سال کے بعد سو روپے لیے جا رہے ہیں جو صریح سود ہے۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ بیع کا لفظ تو صرف دھوکا دینے کے لیے بولا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسی روپے ہی واپس کرے گا۔ اگر یہ سو روپے واپس لے گا تو یہ سود ہو گا۔ [فله أوكسَهُما أو الرِّبا] یہ آخری دو صورتیں اس حدیث (ایک سودے میں دو سودے) کی بہترین تفسیر ہیں اور یہ دونوں منع ہیں، البتہ پہلی صورت نقد و ادھار والی صحیح ہے۔ اگر سود ایک صورت میں طے ہو جائے تو ادھار اور نقد قیمت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک بیع ہے، دو نہیں، لہٰذا یہ صورت اس حدیث کی صحیح تفسیر نہیں۔ ابہام باقی رہے، کوئی اور صورت طے نہ ہو تو اسے اس حدیث کے تحت لایا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4636   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.