تخریج: «أخرجه أبوداود، السنة، باب في قتال اللصوص، حديث:4772، والترمذي، الديات، حديث:1418، 1421، والنسائي، تحريم الدم، حديث:4094، 4095، وابن ماجه، الحدود، حديث:2580.»
تشریح:
1. اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ جو آدمی دوسرے کا مال و متاع سلب کرنے اور چھیننے کا ارادہ رکھتا ہو اس سے لڑنا جائز ہے۔
2. مال کا مالک اگر اس دفاعی لڑائی میں مارا جائے تو وہ شہید ہے۔
3. اگر مال کے مالک سے حملہ آور قتل ہو جائے تو اس پر قصاص ہے نہ دیت اور نہ کسی قسم کا گناہ۔
اگر یہ نہ ہو تو پھر اس سے لڑنے کی اجازت کے کوئی معنی ہی نہیں۔
4 امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی آدمی میرا مال حاصل کرنے کے ارادے سے آتا ہے تو…؟ آپ نے فرمایا:
”تم اسے مت دو۔
“ اس نے پھر پوچھا: اگر وہ میرے ساتھ لڑائی کرے تو؟ آپ نے فرمایا:
”تم بھی اس سے لڑو۔
“ اس نے پھر عرض کیا: اگر وہ مجھے قتل کر دے تو؟ آپ نے فرمایا:
”تم شہید ہو۔
“ اس نے پوچھا: اگر میں اسے قتل کر دوں تو؟ آپ نے فرمایا:
”وہ آگ میں داخل ہوگا۔
“ (صحیح مسلم‘ الإیمان‘ حدیث:۱۴۰)یہ روایت تو مالی معاملات کے بارے میں ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی احادیث وارد ہیں۔
5 ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل و عیال‘ مال و متاع‘ جان اور اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کر دیا جائے وہ شہید ہے۔