مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث966
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے شیخ نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے بنا بریں اسے حسن ماننے کی صورت میں نماز کے دوران میں منہ پر کپڑا ڈالنا یا کپڑے سے منہ چھپانا منوع ہوگا۔ اس عمل کو اہل عرب سدل سے تعبیر کرتے ہیں جیسا کہ بعض روایات میں لفظ سدل کا بھی ذکر آیا ہے۔ دیکھئے: (مسند احمد، 348، 345، 341، 295، وسنن ابی داؤد، الصلاۃ، حدیث: 644، 643)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 966
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 643
´نماز میں سدل کرنے کی ممانعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل ۱؎ کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عسل نے عطاء سے، عطاء نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 643]
643. اردو حاشیہ: ➊ ”سدل“ کی شارحیں حدیث نے یہ وضاحت کی ہے کہ چادر کو اس کے درمیان سے اپنے سر یا کندھوں پر ڈال لیا جائے اور اس کی دائیں بائیں اطراف لٹکی رہیں۔ یا صاحب النہایہ کے بیان کے مطابق کپڑے کو اس انداز سے اپنے اوپر لپیٹ لیا جائے کہ ہاتھ بھی اندر ہی بند ہو جائیں اور پھر رکوع اور سجدے میں بھی ان کو نہ نکالا جائے، تو یہ صورتیں نماز کےمنافی ہیں۔ ➋ روایت ضعیف ہے، اس لیے مسئلے کےاثبات کے لیے کافی نہیں۔ تاہم شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک صحیح ہے، بنابریں اس صورت میں سدل ممنوع ہو گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 643
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 378
´نماز میں سدل کی کراہت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 378]
اردو حاشہ: 1؎: سدل کی صور ت یہ ہے کہ چادر یا رومال وغیرہ کو اپنے سر یا دونوں کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا چھوڑ دیا جائے اور سدل کی ایک تفسیر یہ بھی کی جاتی ہے کہ کُرتا یا جُبہ اس طرح پہنا جائے کہ دونوں ہاتھ آستین میں ڈالنے کے بجائے اندر ہی رکھے جائیں اور اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا جائے۔
2؎: اس تقیید پر کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مطلق ہے اس لیے کہ سدل مطلقاً جائز نہیں، کرتے کے اوپر سے سدل میں اگرچہ ستر کھلنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے نماز میں خلل تو پڑتا ہی ہے، چاہے سدل کی جو بھی تفسیرکی جائے۔
نوٹ: (عسل بن سفیان بصری ضعیف راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن ابو جحیفہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 378