معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم رکوع اور سجدے میں مجھ سے سبقت نہ کرو، اگر میں رکوع تم سے پہلے کروں گا تو تم مجھ کو پا لو گے جب میں رکوع سے سر اٹھا رہا ہوں گا، اور اگر میں سجدہ میں تم سے پہلے جاؤں گا تو تم مجھ کو پا لو گے جب میں سجدہ سے سر اٹھا رہا ہوں گا، کیونکہ میرا جسم بھاری ہو گیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11426، ومصباح الزجاجة: 346)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 75 (619)، مسند احمد (4/92، 98)، سنن الدارمی/الصلاة 72 (1354) (حسن صحیح)»
It was narrated that Mu’awiyah bin Abu Sufyan said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Do not bow or prostrate before me. No matter how far ahead of you I bow, you will catch up with me when I stand up, and no matter how far ahead of you I prostrate, you will catch up with me when I raise my head. I have become bulky.’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث963
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب مقتدی امام کے بعد رکوع میں جائے گا۔ تو سراٹھاتے وقت بھی وہ امام سے اتنا ہی پیچھے ہوگا۔ اس طرح مقتدی کا رکوع بھی اتنا ہی طویل ہوجائے گا۔ جتنا طویل امام کا رکوع ہے۔ یہی کیفیت قومے سجدے اور جلسے کی ہے۔
(2) رکوع، سجدہ، قومہ اور جلسہ چونکہ ایسے ارکان ہیں جن میں اللہ کا ذکرکیا جاتا ہے۔ اور دعایئں اور تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔ اس لئے امام کے بعد سر اٹھانے والے کو سنت کے مطابق نماز پڑھانے والے امام سے یہ خطرہ نہیں کہ امام میرے اٹھنے تک قومے یا جلسے سے فارغ نہ ہوجائے۔ تعدیل ارکان کے ساتھ نماز پڑھنے والے امام کا مقتدی امام سے پیچھے رہنے کے باوجود اس کے ساتھ ارکان میں شامل ہوجاتا ہے۔ حدیث کا یہی مطلب ہے کہ بعد میں رکوع اور سجدہ کرنے کے باوجود تم تمام ارکان میں میرے ساتھ شامل رہو گے لہٰذا جلدی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 963
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 619
´مقتدیوں کو حکم ہے کہ وہ امام کی اتباع کریں۔` معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رکوع اور سجود میں تم مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں رکوع کرنے میں تم سے جس قدر آگے ہوں گا، میرے سر اٹھانے پر تمہاری یہ تلافی ہو جائے گی (کہ تم اتنا یہ تاخیر سے سر اٹھاؤ گے) بلاشبہ میں کسی قدر بھاری ہو گیا ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 619]
619۔ اردو حاشیہ: یہاں جسمانی طور پر بھاری پن کے اظہار سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب، نماز کے ارکان کی ادائیگی میں اعتدال و توازن ہے۔ یعنی میں زیادہ تیزی سے رکوع میں جانے اور رکوع سے اٹھنے کے لیے حرکت نہیں کر سکتا، اس لیے سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے پہل نہ کرنا، بلکہ میرے بعد ہی سارے ارکان ادا کرنا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 619