(مرفوع) حدثنا جميل بن الحسن بن جميل العتكي ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة بن جندب ، قال: سكتتان حفظتهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانكر ذلك عمران بن الحصين، فكتبنا إلى ابي بن كعب بالمدينة، فكتب ان سمرة قد حفظ، قال سعيد: فقلنا لقتادة: ما هاتان السكتتان؟ قال:" إذا دخل في صلاته وإذا فرغ من القراءة، ثم قال بعد، وإذا قرا: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، قال: وكان يعجبهم إذا فرغ من القراءة ان يسكت حتى يتراد إليه نفسه". (مرفوع) حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ جَمِيلٍ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ، قَالَ: سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ، فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ، فَكَتَبَ أَنَّ سَمُرَةَ قَدْ حَفِظَ، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ: مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ؟ قَالَ:" إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ، وَإِذَا قَرَأَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، قَالَ: وَكَانَ يُعْجِبُهُمْ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے اس کا انکار کیا، اس پر ہم نے مدینہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے ٹھیک یاد رکھا ہے۔ سعید نے کہا: ہم نے قتادہ سے پوچھا: وہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ایک تو وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے اور دوسرا جب قراءت فاتحہ سے فارغ ہوتے۔ پھر بعد میں قتادہ نے کہا: دوسرا سکتہ اس وقت ہوتا جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہہ لیتے، قتادہ نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ پسند تھا کہ جب امام قراءت سے فارغ ہو جائے تو تھوڑی دیر خاموش رہے، تاکہ اس کا سانس ٹھکانے آ جائے۔
وضاحت: ۱؎: یہ بھی جائز ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورت بھی پڑھے، پھر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا کیونکر جائز نہ ہو گا، لیکن اولی یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی صرف سورۃ فاتحہ پر قناعت کر لے، امام محمد نے موطا میں عبداللہ بن شداد سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز میں امامت کی، ایک شخص نے آپ ﷺ کے پیچھے قراءت کی، تو اس کے پاس والے نے اس کی چٹکی لی، جب وہ نماز پڑھ چکا تو بولا: تم نے چٹکی کیوں لی، پاس والے نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس کا امام ہو تو امام کی قراءت مقتدی کے لئے بھی کافی ہے“، اس سے یہی مراد ہے کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ مقتدی اور دوسری سورۃ نہ پڑھے، اس باب کی تمام احادیث سے ثابت ہے کہ ہر نماز میں خواہ فرض ہو یا نفل، جہری ہو یا سری سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، بغیر فاتحہ پڑھے کوئی نماز درست نہیں ہوتی، یہ وہ مسئلہ ہے کہ امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری نے اس پر مستقل کتاب لکھی ہے، اور امام بیہقی نے ان سے بھی کئی گنا ضخیم کتاب لکھی ہے، اور سورۃ فاتحہ کے نہ پڑھنے والوں کے تمام شہبات کا مسکت جو اب دیا ہے، نیز مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری، اور مولانا ارشاد الحق نے اس موضوع پر مدلل کتابیں لکھی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 123 (779، 780)، سنن الترمذی/الصلاة 72 (251)، (تحفة الأشراف: 4589)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/21) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں حسن بصری ہیں، ان کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے عقیقہ والی حدیث کے سوا کسی اور حدیث میں ثابت نہیں ہے، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 505)
It was narrated that Samurah bin Jundab said:
“There are two pauses which I memorized from the Messenger of Allah (ﷺ), but `Imran bin Husain denied that. We wrote to Ubayy bin Ka`b in Al-Madinah, and he wrote that Samurah had indeed memorized them.” (One of the narrators) Sa`eed said: "We said to Qatadah: 'What are these two pauses?' He said: 'When he started his prayer, and when he finished reciting.' Then later he said: 'And when he recited: 'Not (the way) of those who earned your anger, nor of those who went astray.' They used to like (for the Imam) when he had finished reciting to remain silent until he had caught his breath.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (251) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 408