مغیث بن سمی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ صبح کی نماز «غلس»(آخر رات کی تاریکی) میں پڑھی، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوا، اور ان سے کہا: یہ کیسی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ نماز ہے جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ پڑھتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ کو نیزہ مار کر زخمی کر دیا گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے «اسفار»(اجالے) میں پڑھنا شروع کر دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عثمان رضی اللہ عنہ کو «اسفار»(اجالے) میں فجر پڑھتے دیکھ کر بعض تابعین کو یہ گمان پیدا ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ یہی تھا کہ وہ «اسفار» میں فجر کی نماز پڑھا کرتے جیسے ابراہیم نخعی سے منقول ہے حالانکہ «اسفار» میں پڑھنے کا باعث جان کا ڈر تھا ورنہ اصلی وقت اس نماز کا وہی تھا جو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ منہ اندھیرے نبی اکرم ﷺ اور شیخین (ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما) ایسا ہی کرتے رہے۔
Mughith bin Sumayi said:
"I prayed the Subh with 'Abdullah bin Zubair in the darkness, and when he said the Taslim, I turned to Ibn 'Umar and said: 'What is this prayer?' He said: 'This is how we prayed with the Messenger of Allah and with Abu Bakr and 'Umar. When 'Umar was stabbed, 'Uthman delayed it until there was light.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث671
اردو حاشہ: (1) نماز فجر کا افضل اور مسنون وقت اول وقت ہی ہے اس لیے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں اسی پر عمل رہا۔
(2) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فجر کی نماز کو روشنی ہونے پر ادا کرنا ایک وقتی مصلحت کے تحت تھا۔ مستقل تبدیلی نہیں تھی۔ اس لیے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے تاخیر کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے اصل سنت کے مطابق اول وقت نماز فجر ادا فرمائی۔
(3) اگر کسی وجہ سے کوئی ایسا رواج شروع ہو جائےجو بہتر نہ ہو تو موقع ملنے پر اسے ختم کرکے صحیح رواج جاری کردینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 671