(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح المصري ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، انه كان قاعدا على مياثر عمر بن عبد العزيز في إمارته على المدينة، ومعه عروة بن الزبير، فاخر عمر العصر شيئا، فقال له عروة : اما إن جبريل نزل فصلى إمام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عمر: اعلم ما تقول يا عروة، قال: سمعت بشير بن ابي مسعود ، يقول: سمعت ابا مسعود ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" نزل جبريل فامني فصليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، ثم صليت معه، يحسب باصابعه خمس صلوات". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عَلَى مَيَاثِرِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي إِمَارَتِهِ عَلَى الْمَدِينَةِ، وَمَعَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَخَّر عُمَرُ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ : أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کر دی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، اور انہوں نے میری امامت کی تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچوں نمازوں کو شمار کر رہے تھے۔
وضاحت: ۱؎: تو عروہ نے حدیث کی سند بیان کر کے عمر بن عبدالعزیز کی تسلی کر دی، اور دوسری روایت میں ہے کہ عروہ نے ایک اور حدیث بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی جو آگے مذکور ہو گی، عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات مقرر ہیں اور جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے نبی اکرم ﷺ کو ان کی تعلیم دی تھی اور آپ ﷺ اپنے اوقات میں نماز ادا فرماتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ اس روز سے عمر بن عبدالعزیز نے کبھی نماز میں دیر نہیں کی، اس سے عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات کی تحدید کے لئے جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو عملی طور پر سکھایا، اس لئے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 2 (521)، بدء الخلق 6 (3221)، المغازي 12 (4007)، صحیح مسلم/المساجد 31 (610)، سنن ابی داود/الصلاة 2 (394)، سنن النسائی/المواقیت 1 (495)، (تحفة الأشراف: 9977)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (1)، مسند احمد (4/120) (صحیح)»
It was narrated from Ibn Shihab that:
He was sitting on the cushions of 'Umar bin 'Abdul-'Aziz when he was the leader over Al-Madinah, and with him was 'Urwah bin Zubair. "umar delayed 'Asr somewhat, and 'Urwah said to him: "Jibril came down and led the Messenger of Allah in prayer." 'Umar said to him: "Know what you are saying, O 'Urwah!" he said: "I heard Bashir bin Abu Mas'ud saying, 'I heard Abu Mas'ud saying, "I heard the Messenger of Allah saying, 'Jibril came down and led me in prayer, and I prayed with him, then I prayed with him, then I prayed with him, then I prayed with him, then I prayed with him,' and he counted five prayers on his fingers."
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث668
اردو حاشہ: (1) قرآن مجید میں نماز کو وقت پر پڑھنے کا حکم ہے جیسے کہ ارشاد ہے کہ ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾(النساء: 4؍103) مومنون پر مقرره اوقات میں نماز ادا کرنا فرض ہے۔ اس کی وضاحت بھی وحی کے ساتھ عملی طور پر کی گئی۔
(2) اوقات نماز کی تعیین کے لیے جبرئیل علیہ السلام کا ہر نماز کے وقت نازل ہونا نماز کی اور خصوصاً نماز با جماعت کی اہمیت بھی واضح كرتا ہے۔
(3) اسلامی معاشرے میں بڑے سے بڑا عہدے دار تنقید سے بالا تر نہیں لیکن تنقید کرتے وقت ادب واحترام کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
(4) اگرمسئلہ واضح نہ ہوتو مسئلہ بتانے والے سے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے۔ یہ احترام کے منافی نہیں۔
(5) اگر کوئی شخص حدیث سن کر کسی اشکال کی وجہ سے اسے تسلیم کرنے میں توقف کرے تو اسے حدیث کا منکر قرار نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کے اشکال کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
(6) حدیث کی سندیں بیان کرنے کا سلسلہ تابعین کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ جس کے نتیجے میں صحیح اور ضعیف احا دیث میں امتیاز کرنا آسان ہوگیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 668
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 495
´جبرائیل علیہ السلام کی امامت کا بیان۔` ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، تو عروہ نے ان سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے، اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی ۱؎ اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو تم کہہ رہے ہو اسے خوب سوچ سمجھ کر کہو، تو عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابومسعود سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جبرائیل اترے، اور انہوں نے میری امامت کرائی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 495]
495 ۔ اردو حاشیہ: ➊حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نماز عصر کو مستحب وقت سے کچھ مؤخر کیا تھا، نہ کہ کل وقت سے۔ اور یہ ولید بن عبدالملک کے دور کی بات ہے جبکہ آپ اس کی طرف سے مدینے کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ حضرت عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے حتیٰ کہ وقت بتلانے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام اترے تھے، لہٰذا نماز کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ ➋حضرت جبریل علیہ السلام نے دو دن نماز پڑھائی تھی۔ پہلے دن سب نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن آخر وقت میں۔ اس روایت میں اوقات ذکر نہیں کیے گئے کیونکہ مقصد صرف یہ بتلانا تھا کہ جبریل علیہ السلام نے اوقات بتلائے تھے، اوقات کا علم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو پہلے سے تھا۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ مذکورہ روایت سننے کے بعد انہوں نے کبھی نماز میں تاخیر نہیں کی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائي: 6؍241۔ 255] ➌امراء اگر کسی خلاف سنت کام کا ارتکاب کریں تو اہل علم کی ذمے داری ہے کہ ان کی اصلاح کریں اور گاہے گاہے انہیں تنبیہ کرتے رہیں۔ ➍عالم دین سے مسئلے کی دلیل طلب کی جا سکتی ہے اور عالم کو چاہیے کہ وہ خالص کتاب و سنت کے دلائل سے سائل کی تشفی کرائے۔ ➎اختلاف کے وقت قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ ➏خبر واحد حجت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 495
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1380
امام ابن شہاب رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن عمر بن عبدالعزیز نے نماز مؤخر کر دی (دیر سے پڑھی) تو ان کے پاس عروہ بن زبیر حاضر ہوئے اور انہیں بتایا، مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن کوفہ میں نماز دیر سے پڑھی تو ان کے پاس ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور پوچھا یہ کیا کیا؟ اے مغیرہ! کیا تمہیں علم نہیں ہے جبریل اترے اور نماز پڑھائی اور رسول اللہ ﷺ نے نماز (اس کے ساتھ) پڑھی، پھر اس نے نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی پھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1380]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے اوقات نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعلیم دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر جبریل امین کو اتارا تھا اور اس نے ان اوقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوقات کی ابتدا اور انتہا کو پوری طرح سمجھ لیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1380
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4007
4007. امام زہری بیان کرتے ہیں کہ میں نے عروہ بن زبیر سے سنا جبکہ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے دورِ خلافت میں ان سے بیان کر رہے تھے کہ ایک دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے نماز عصر تاخیر سے پڑھی جبکہ وہ کوفہ کے گورنر تھے۔ ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری ؓ نے ان کے پاس جا کر انہیں کہا۔ وہ زید بن حسن کے نانا اور بدر میں شریک تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت جبریل ؑ نازل ہوئے اور نماز پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے مطابق پانچ نمازیں ادا کیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ”مجھے اس طرح حکم ملا ہے۔“ بشیر بن ابو مسعود بھی اپنے والد سے یہ حدیث اسی طرح بیان کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4007]
حدیث حاشیہ: ابومسعود ؓ کی بیٹی ام بشر پہلے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کو منسوب تھیں۔ بعد میں حضرت حسن ؓ نے ان سے نکاح کرلیا اور ان کے بطن سے حضرت زید بن حسن ؓ پیدا ہوئے۔ ابومسعود ؓ بدری تھے۔ یہی با ب سے وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4007
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3221
3221. ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ایک دن نماز عصر کچھ دیر سے پڑھائی تو حضرت عروہ بن زبیر نے ان سے کہا کہ حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑے ہوکر انھیں نماز پڑھائی۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے فرمایا: عروہ! آپ کو معلوم ہے آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابو مسعود سے سنا، انھوں نے اپنے والد گرامی حضرت ابو مسعود ؓ سے سنا، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرمارہے تھے: ”حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے، انھوں نے مجھے نماز پڑھائی اور میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر (دوسرے وقت) میں نے ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر میں نے ان کی معیت میں نماز پڑھی، پھر میں نے ان کی اقتدا میں نماز پڑھی اور پھر ان کے ساتھ نماز ادا کی۔“ آپ نے اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3221]
حدیث حاشیہ: حضرت جبرئیل ؑ آپ ﷺ کو عملی طور پر اوقات نماز کی تعلیم دینے آئے تھے۔ چنانچہ اول وقت اور آخر وقت ہر دو میں پانچوں نمازوں کو پڑھ کر آپ کو بتلایا۔ یہاں حدیث میں اس پر اشارہ ہے۔ عروہ بن زبیر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو تاخیر نماز عصر پر ٹوکا اور حدیث مذکور بطور دلیل پیش فرمائی پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استفسار پر حدیث مع سند بیان کی، جسے سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو یقین کامل حاصل ہوگیا۔ اس حدیث سے نمازعصر کا اول وقت پر ادا کرنا بھی ثابت ہوا۔ جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا معمول ہے۔ ان لوگوں کا عمل خلاف سنت بھی معلوم ہوا جو عصر کی نماز تاخیر کرکے پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ تو بالکل غروب کے وقت نماز عصر ادا کرنے کے عادی ہیں، ایسے لوگوں کو منافق کہاگیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3221
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3221
3221. ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؓ نے ایک دن نماز عصر کچھ دیر سے پڑھائی تو حضرت عروہ بن زبیر نے ان سے کہا کہ حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑے ہوکر انھیں نماز پڑھائی۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے فرمایا: عروہ! آپ کو معلوم ہے آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابو مسعود سے سنا، انھوں نے اپنے والد گرامی حضرت ابو مسعود ؓ سے سنا، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرمارہے تھے: ”حضرت جبرئیل ؑ نازل ہوئے، انھوں نے مجھے نماز پڑھائی اور میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر (دوسرے وقت) میں نے ان کے ساتھ نماز ادا کی، پھر میں نے ان کی معیت میں نماز پڑھی، پھر میں نے ان کی اقتدا میں نماز پڑھی اور پھر ان کے ساتھ نماز ادا کی۔“ آپ نے اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3221]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عروہ بن زبیر نے جناب عمر بن عبدالعزیز ؒ کو نمازعصر کی تاخیر پر ٹوکا اور حدیث بطور دلیل پیش فرمائی، پھرحضرت عمر بن عبدالعزیز کے استفسار پرحدیث کی سند بیان کردی، جسے سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو کامل یقین حاصل ہوگیا۔ 2۔ اس حدیث سے نمازعصر کا اول وقت میں پڑھنا ثابت ہوا جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا معمول ہے۔ اس سے اوقات نماز کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ رسول اللہ ﷺ کو ان اوقات کی عملی تعلیم دینے کے لیے خود تشریف لائے اور اول وآخر دونوں وقتوں میں پانچوں نمازیں پڑھ کر تعلیم دی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اس امر پر تعجب ہوا کہ حضرت جبرئیل ؒ نے رسول اللہ ﷺ کی امامت کرائی تھی۔ اس پر جناب عروہ نے سند کے ساتھ حدیث بیان کردی۔ (صحیح البخاري، المواقیت، حدیث: 521) 3۔ حضرت ابومسعود کا نام عقبہ بن عمرو انصاری سے جو زید بن حسن کے دادا اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث: 4007) 4۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے حضرت جبرئیل ؒ کا وجود اور ان کی کارکردگی ثابت کی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3221