ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس لوٹتیں، لیکن انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا، یعنی رات کے آخری حصہ کی تاریکی کے سبب ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنی چاہئے، اور یہی نبی ﷺ کا دائمی طریقہ تھا۔
Sunan Ibn Majah 669
It was narrated that 'Aishah said:
"The believing women used to perform the Subh prayer with the Prophet, then they would go back to their families and no one would recognize them," meaning of the darkness.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث669
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرتے تھے۔
(2) نمازوں میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وعظ و نصیحت فرماتے یا آپ سے مسائل دریافت کیے جاتے تو عورتیں بھی سنتیں اور دین کا علم حاصل کرتیں۔ بعض اوقات کوئی عورت خود بھی کوئی مسئلہ دریافت کر لیتی تھی۔ اب بھی عورتیں آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز کے لیے مسجد میں آنا چاہیں تو انہیں منع نہیں کرنا چاہیے اگرچہ گھر میں نماز پڑھنا عورتوں کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
(3) ام المومنین کی وضاحت سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے پہچانے نہ جانے کا سبب یہ ہوتا تھا کہ نماز سے فراغت کے وقت اتنی روشنی نہیں ہوتی تھی کہ معلوم ہو سکے کہ چادر اوڑھ کر جانے والی یہ عورت کون ہے؟ زیادہ روشنی میں باپردہ ہونے کے باوجود اس عورت کو پہچانا جا سکتا ہے جو رشتہ داروں میں سے ہو اور مرد اس سے واقف ہو۔
(4) فجر میں قراءت طویل ہونے کے باوجود اتنی جلدی فارغ ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ نماز بہت جلد کھڑی ہو جاتی تھی اور نماز اول وقت میں ادا کی جاتی تھی۔
(5) عورتیں نماز کا سلام پھیرنے کے بعد ذکر اذکار کے لیے نہیں بیٹھتی تھیں بلکہ فوراً اٹھ کر چلی جاتی تھیں جب کہ مرد اس وقت تک نہ اٹھتے تھے جب تک تمام عورتیں مسجد سے چلی نہ جاتیں۔ جیسے کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 669