انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ابن آدم (انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے، اس کی گردن کے پاس، پھر اپنا ہاتھ آگے پھیلا کر فرمایا: ”اور یہاں تک اس کی آرزوئیں اور خواہشات بڑھی ہوئی ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ نے قد آدم تک اشارہ کیا کہ یہ آدمی ہے پھر ذرا کم کر کے بتلایا کہ یہ اس کی عمر ہے پھر اس سے بڑھا کر بتلایا کہ یہ آرزو ہے، یعنی اس کی عمر سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4232
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: انسان کی امیدوں کے مقابلے میں اس کی اجل بہت قریب ہے لہٰذا اس کے استقبال کی تیاری ضروری ہے۔ دنیا میں مشغول ہوکر آخرت سے غفلت انتہائی نادانی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4232
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2334
´امت محمدیہ کا فتنہ مال ہے۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے“، اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا: ”یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2334]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصرہے، موت اس سے قریب ہے، لیکن اس کی خواہشیں اورآرزوئیں لامحدود ہیں، اس لیے آدمی کوچاہئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصرزندگی کو پیش نظررکھے، اورزیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکرکرے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2334
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6418
6418. حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے چند خطوط کھینچے پھر فرمایا: ”یہ انسان کی اُمید ہے اور یہ اس کی موت ہے۔ انسان اسی حالت میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6418]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط کھینچے ان کی درج ذیل صورت بنتی ہے: (تصویر کتاب میں جلد نمبر نو اور صفحہ 396 پر موجود ہے) اس تمثیل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سمجھائی ہے کہ انسان لمبی چوڑی خواہشات رکھتا ہے جو اس کی زندگی سے بھی باہر نکلی ہوتی ہیں، اچانک موت آ کر انسان کا خاتمہ کر دیتی ہے اور اس کی امیدیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور وہ ان کی تکمیل سے پہلے ہی فوت ہو جاتا ہے۔ شیطان نے بھی یہ حربہ استعمال کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”شیطان انہیں وعدے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے۔ شیطان کے وعدے فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ “(النساء: 120)(2) انسان جوں جوں بوڑھا ہوتا ہے، شیطان اس کے دل میں بے جا آرزوئیں پیدا کرتا رہتا ہے جن سے انسان کی حرص اور لمبی امیدوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسی ہی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے وہ کئی قسم کے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے یہاں تک کہ موت اسے یکدم آ کر دبوچ لیتی ہے اور اس کی لمبی چوڑی خواہشات کے سلسلے کو منقطع کر دیتی ہے۔ (3) بہرحال شیطان کا انسان کو گمراہ کرنے کے لیے وعدے اور امیدیں دلانا سب کچھ مکروفریب ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے جنت کا وعدہ کیا ہے، وہ بالکل سچا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر سچا ہو بھی کون سکتا ہے؟ اللهم أدخلنا الجنة الفردوس الأعلی (آمين)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6418