ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو جو باتیں کہیں، ان میں یہ بات بھی تھی: ”آگاہ رہو! کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، جب وہ حق کو جانتا ہو“، یہ حدیث بیان کر کے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع) دیکھیں، لیکن ہم ڈر اور ہیبت کا شکار ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 26 (2191)، (تحفة الأشراف: 4366)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/7، 19، 61، 70) (صحیح)»
لا يحقر أحدكم نفسه قالوا يا رسول الله كيف يحقر أحدنا نفسه قال يرى أمرا لله عليه فيه مقال ثم لا يقول فيه فيقول الله له يوم القيامة ما منعك أن تقول في كذا وكذا فيقول خشية الناس فيقول فإياي كنت أحق أن تخشى
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4007
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) جب معلوم ہو کہ فلاں کام ناجائز ہورہا ہے اور شریعت کا حکم یہ ہے تو حق بیان کرنا چاہیے شاید غلط کام کرنے والوں کو ہدایت نصیب ہوجائے یا کم از کم دوسرے لوگوں کو شرعی حکم معلوم ہوجائے اور وہ باطل کو حق نہ سمجھ لیں۔
(2) جب جان چلے جانے کا یا سخت نقصان کا اندیشہ ہو تو خاموش رہنا جائز ہوتا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر بھی افضل یہی ہے کہ عزیمت کا راستہ اختیار کرکے حق بیان کیا جائے اور اس راہ میں آنے والی مشکلات اور تکلیفوں کو برداشت کیا جائے۔ جیسے امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ نے کیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4007
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2191
´قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: ”دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو“۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: ”خبردار! حق جان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2191]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث ونائب بنائے گا، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ ونائب ہے یہ غلط بات ہے، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیساکہ خضرکی دعامیں ہے (والخلیفةبعد) 2؎: یعنی تمہارے دین کے کاموں کے لیے دنیا جس قدر مفید اور معاون ہو اسی قدر اس کی چاہت کرو، اور عورتوں کی مکاری اور ان کی چالبازی سے ہوشیار رہو۔
3؎: اس حدیث سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے:
(1) کھڑے ہوکر وعظ و نصیحت کرنا مسنون ہے۔
(2) انسان بھول چوک کا شکار ہوتاہے، یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔
(3) اظہار حق کے لیے لوگوں کا ڈر و خوف مانع نہ ہو۔
(4) دنیا اورعورتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
(5) عہد توڑنا قیامت کے دن رسوائی کا باعث ہوگی۔
(6) انسان پیدائش سے لے کر مرنے تک ایمان و کفر کی آزمائش سے گزر تاہے۔
(7) غصہ کے مختلف مراحل ہیں۔
(8) قرض کا لین دین، کس انداز سے ہو۔
(9) غصہ کی حالت میں انسان کیا کرے؟ (10) دنیا سے اس کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے۔
(سند میں (علی بن زید بن جدعان) ضعیف ہیں، اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے: (الصحیحة: 486، و 911)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2191