(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد , حدثنا يحيى بن سليم , عن عبد الله بن عثمان بن خثيم , عن ابي الزبير , عن جابر , قال: لما رجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مهاجرة البحر , قال:" الا تحدثوني باعاجيب ما رايتم بارض الحبشة" , قال فتية منهم: بلى يا رسول الله , بينا نحن جلوس مرت بنا عجوز من عجائز رهابينهم , تحمل على راسها قلة من ماء , فمرت بفتى منهم , فجعل إحدى يديه بين كتفيها , ثم دفعها , فخرت على ركبتيها , فانكسرت قلتها , فلما ارتفعت , التفتت إليه , فقالت: سوف تعلم , يا غدر إذا وضع الله الكرسي , وجمع الاولين والآخرين , وتكلمت الايدي والارجل بما كانوا يكسبون , فسوف تعلم كيف امري وامرك , عنده غدا , قال: يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صدقت صدقت , كيف يقدس الله امة لا يؤخذ لضعيفهم من شديدهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: لَمَّا رَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرَةُ الْبَحْرِ , قَالَ:" أَلَا تُحَدِّثُونِي بِأَعَاجِيبِ مَا رَأَيْتُمْ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ" , قَالَ فِتْيَةٌ مِنْهُمْ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَرَّتْ بِنَا عَجُوزٌ مِنْ عَجَائِزِ رَهَابِينِهِمْ , تَحْمِلُ عَلَى رَأْسِهَا قُلَّةً مِنْ مَاءٍ , فَمَرَّتْ بِفَتًى مِنْهُمْ , فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ بَيْنَ كَتِفَيْهَا , ثُمَّ دَفَعَهَا , فَخَرَّتْ عَلَى رُكْبَتَيْهَا , فَانْكَسَرَتْ قُلَّتُهَا , فَلَمَّا ارْتَفَعَتْ , الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ , فَقَالَتْ: سَوْفَ تَعْلَمُ , يَا غُدَرُ إِذَا وَضَعَ اللَّهُ الْكُرْسِيَّ , وَجَمَعَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ , وَتَكَلَّمَتِ الْأَيْدِي وَالْأَرْجُلُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ , فَسَوْفَ تَعْلَمُ كَيْفَ أَمْرِي وَأَمْرُكَ , عِنْدَهُ غَدًا , قَالَ: يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَتْ صَدَقَتْ , كَيْفَ يُقَدِّسُ اللَّهُ أُمَّةً لَا يُؤْخَذُ لِضَعِيفِهِمْ مِنْ شَدِيدِهِمْ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سمندر کے مہاجرین (یعنی مہاجرین حبشہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ مجھ سے وہ عجیب باتیں کیوں نہیں بیان کرتے جو تم نے ملک حبشہ میں دیکھی ہیں؟“، ان میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے، ان راہباؤں میں سے ایک بوڑھی راہبہ ہمارے سامنے سر پر پانی کا مٹکا لیے ہوئے ایک حبشی نوجوان کے قریب سے ہو کر گزری، تو اس حبشی نوجوان نے اپنا ایک ہاتھ اس بڑھیا کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ کر اس کو دھکا دیا جس کے باعث وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی، اور اس کا مٹکا ٹوٹ گیا، جب وہ اٹھی تو اس حبشی نوجوان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی: غدار! (دھوکا باز) عنقریب تجھے پتہ چل جائے گا جب اللہ تعالیٰ کرسی رکھے ہو گا، اور اگلے پچھلے سارے لوگوں کو جمع کرے گا، اور ہاتھ پاؤں ہر اس کام کی گواہی دیں گے جو انہوں نے کیے ہیں، تو کل اس کے پاس تجھے اپنا اور میرا فیصلہ معلوم ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے: ”اس بڑھیا نے سچ کہا، اس بڑھیا نے سچ کہا، اللہ تعالیٰ اس امت کو گناہوں سے کیسے پاک فرمائے گا، جس میں کمزور کا بدلہ طاقتور سے نہ لیا جا سکے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2779، ومصباح الزجاجة: 1410) (حسن)» (سند کو بوصیری نے حسن کہا ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو الزبير عنعن و للحديث شاھد ضعيف عند البيھقي (6/ 95) فيه عطاء بن السائب اختلط و في السندين إليه نظر أيضًا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4010
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مکہ کے مظلوم مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ پہلے گروپ نے رجب 5 نبوت میں ہجرت کی اس کے بعد اگلے سال زیادہ افراد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت مدینہ کے بعد یہ حضرات مختلف اوقات میں گروہوں کی شکل میں مدینہ پہنچ گئے۔
(2) سمندر کے مہاجرین سے مراد حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے لوگ ہیں کیونکہ یہ حضرات بحر قلزم (بحر احمر) پار کرکے حبشہ پہنچے تھے۔
(3) سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی قیامت اور جنت جہنم کا ذکر موجود تھا۔ نبی ﷺ کے دور میں اگرچہ ان کتا بوں میں تحریف ہوچکی تھی۔ تاہم ان میں بہت سی صحیح باتیں موجود تھیں۔ موجودہ بائبل میں یہ تحریف بہت زیادہ ہےاور صحیح چیزیں شاذ ونادر ہیں۔
(4) غیر مسلم صحیح بات کرے تو اس کی بھی تصدیق کرنی چاہیے۔
(5) جس قوم میں کمزوروں پر ظلم کیاجائے۔ وہ اللہ کی طرف سے سزا کی مستحق ہوجاتی ہے۔
(6) اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں عدل وانصاف قائم رہے اور مظلوم کی مدد کرتے ہوئے ظالم کو پوری سزا دی جائے۔
(7) موجودہ غیر مسلم معاشرے میں قانون اس قسم کے ہیں جن سے ظالم کو تحفظ ملتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں بھی انھی ظالمانہ قوانین کو رائج کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ظلم پھیلتا ہے اور مظلوم تباہ ہوتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4010
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1195
´(قضاء کے متعلق احادیث)` سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ” وہ امت کیسے پاک ہو سکتی ہے جس میں طاقتور سے کمزور کا حق نہ دلوایا جا سکے۔“ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور بزار کے ہاں بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کی شاہد ہے اور اس کا ایک اور شاہد ابن ماجہ میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1195»
تخریج: «أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1554، 2584، وابن ماجه، الفتن، حديث:4010 بطوله، وحديث بريدة: أخرجه البزار، كشف الأستار:1 /235، 236، حديث:1596 وهو حديث حسن، وحديث أبي سعيد الخدري: أخرجه ابن ماجه، الفتن، حديث:4011، وهو حديث حسن.»
تشریح: سبل السلام میں ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ امت جو طاقت ور سے کمزور کو انصاف نہیں دلواتی اور اس کا جو حق بنتا ہے وہ لے کر نہیں دیتی تو وہ گناہوں سے کیسے پاک ہو گی‘ لہٰذا کمزور کی مدد کرنا واجب ہے یہاں تک کہ وہ طاقت ور سے اپنا حق لے لے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1195