(قدسي) حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني , حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , عن العلاء بن عبد الرحمن , عن ابيه , عن ابي هريرة , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" قال الله عز وجل: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي شطرين , فنصفها لي , ونصفها لعبدي , ولعبدي ما سال" , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرءوا: يقول العبد: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 فيقول الله عز وجل: حمدني عبدي , ولعبدي ما سال , فيقول: الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 , فيقول: اثنى علي عبدي , ولعبدي ما سال , يقول: مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 , فيقول الله: مجدني عبدي , فهذا لي , وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين , يقول العبد: إياك نعبد وإياك نستعين سورة الفاتحة آية 5 , يعني: فهذه بيني وبين عبدي , ولعبدي ما سال , وآخر السورة لعبدي , يقول العبد: اهدنا الصراط المستقيم {6} صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين {7} سورة الفاتحة آية 6-7 , فهذا لعبدي , ولعبدي ما سال". (قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي شَطْرَيْنِ , فَنِصْفُهَا لِي , وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ" , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَءُوا: يَقُولُ الْعَبْدُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ , فَيَقُولُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 , فَيَقُولُ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ , يَقُولُ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 , فَيَقُولُ اللَّهُ: مَجَّدَنِي عَبْدِي , فَهَذَا لِي , وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ , يَقُولُ الْعَبْدُ: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سورة الفاتحة آية 5 , يَعْنِي: فَهَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ , وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي , يَقُولُ الْعَبْدُ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ {6} صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ {7} سورة الفاتحة آية 6-7 , فَهَذَا لِعَبْدِي , وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، آدھا میرے لیے ہے، اور آدھا میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پڑھو!، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «حمدني عبدي ولعبدي ما سأل» میرے بندے نے میری حمد ثنا بیان کی، اور بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور جب بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أثنى علي عبدي ولعبدي ما سأل» میرے بندے نے میری تعریف کی، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «مجدني عبدي فهذا لي وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين» میرے بندے نے میری عظمت بیان کی تو یہ میرے لیے ہے، اور یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، یعنی پھر جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «فهذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل وآخر السورة لعبدي» یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور سورت کی اخیر آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، پھر جب بندہ «اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: «فهذا لعبدي ولعبدي ما سأل» یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے“۔
قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سأل قال رسول الله اقرءوا يقول العبد الحمد لله رب العالمين يقول الله حمدني عبدي يقول العبد الرحمن الرحيم يقول الله أثنى علي عبدي يقول العبد مالك يوم الدين يق
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3784
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سورہ فاتحہ سب سے عظیم سورت ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کو“نماز”فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تلاوت نماز کارکن ہے۔
(3) اس حدیث سےاستدلال کیا گیا ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورہ فاتحہ کی آیت نہیں۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صحیح حدیث میں اس بات کی قطعی طور پر صراحت اور وضاحت موجود ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورہ فاتحہ کی ایک مستقبل آیت ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (إذا قرأتم: (الحمد لله) فاقرءوا (بسم الله الرحمن الرحيم) إنها أم القرآن وأم الكتاب والسبع المثاني و((بسم الله الرحمن الرحيم) ) إحداها» یعنی جب تم سورہ فاتحہ پڑھو تو بسم الله الرحمن الرحيم پڑھا کرو کیونکہ یہ (سورت فاتحہ) ام الکتاب اور السبع المثانی ہے اور (بسم ا لله الرحمن الرحيم) اس (سورہ فاتحہ) کی ایک آیت ہے۔ دیکھیے: (سلسلة الأحاديث الصحيحة، المجلد الثالث، ص: 179، حديث: 1183) دوسری سورتوں کے شروع میں جو بسم اللہ ہے وہ سورتوں کا جزء نہیں، تاہم یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی آیت ہے اور سورہ توبہ کے سوا ہر سورت کے ساتھ نازل ہوئی ہے، اس لیے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔
(4) جہری نماز میں ایک لحاظ سے دعا ہے کیونکہ اللہ کی تعریف سے مقصود اس کی رضا اور قرب کا حصول ہوتا ہے اور حمد و ثنا کرنے والے کو یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔
(5) نمازی کو اگرچہ اسلام کےذریعے سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے اس کے باوجود انسان کو زندگی میں ہر قدم پرا اللہ کی رہنمائی اور توفیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بندہ نماز میں سورہ فاتحہ کے ذریعے سےاللہ سے ہدایت کی درخواست کرتا رہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3784
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 878
´امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا` «. . . من صلى صلاة، لم يقرا فيها بام القرآن، فهي خداج، ثلاثا غير تمام . . .» ”۔۔۔ جس نے نماز میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا۔۔۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ: 878]
تفقہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من صلى صلاة، لم يقرا فيها بام القرآن، فهي خداج، ثلاثا غير تمام، فقيل لابي هريرة: إنا نكون وراء الإمام، فقال: اقرا بها فى نفسك» ”جو کوئی ایسی نماز پڑھے کہ اس میں سورۃ الحمد نہ پڑھے تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ہے! پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ وہ امام کے پیچھے ہوتے ہیں؟ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھ لے۔“ ↰ اس حدیث سے بھی بخوبی ثابت ہو گیا کہ سورۃ الحمد کے بغیر نماز «خداج» ہے اور پوری نہیں ہے اور «خداج» نقصان ذاتی کو کہتے ہیں نہ کہ وصفی کو۔ چنانچہ: ◈ علامہ جار اللہ الزمخشری ”اساس البلاغۃ“ میں لکھتے ہیں کہ: «ناقة خادج الوقت ولذها قبل الوقت»[اساس البلاعة] اور اقرب الموارد میں ہے کہ: «خدج صلواته نقض بعض اركانها»[اقرب الموارد] اور یہ حدیث شریف بھی ہر مصلی کو عام ہے، کیونکہ اس میں بھی لفظ «من» واقع ہے جو کہ الفاظ عموم میں سے ہے۔
اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 22
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 116
´امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا` «. . . من صلى صلاة، لم يقرا فيها بام القرآن، فهي خداج، ثلاثا غير تمام . . .» ”۔۔۔ جس نے نماز میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا۔۔۔“[صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ: 878]
تخریج الحدیث: [وأخرجه سلم 395/39، من حديث ما لك به] تفقه: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ شاگرد نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میں امام کی قرأت سن رہا ہوتا ہوں؟ تو انہوں نے فرمایا: اے فارسی! اپنے دل میں پڑھ۔ [مسند ابي عوانه 128/2، وسنده صحيح] ● اس کی تشریح میں ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں: آہستہ پڑھ، بلند آواز سے نہ پڑھ۔ [مرقاة المفاتيح549/2 ح 823] ● اس پر اجماع ہے کہ اس حدیث میں پڑھنے سے مرادسراً بغیر جہر کے پڑھنا ہے۔ دیکھئے کتاب [القرأت للبيهقي ص 31] ● شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی نے کہا: ”یعنی آہستہ بخوان تا غیرتو آنرا نشنود“ یعنی آہستہ پڑھ تاکہ تیرے سوا دوسرا کوئی اسے نہ سنے۔ [مسوي مصفي شرح موطأ ج اص106] ◄ معلوم ہوا کہ جو لوگ اس سے ہونٹ ہلانے کے بغیر صرف اخبار پڑھنے والا تدبر مراد لیتے ہیں غلط ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد سے فرمایا: جب امام سورہ فاتحہ پڑھے تو تُو اسے پڑھ اور امام سے پہلے ختم کر لے۔ [جزء القراء للبخاري: 237 وسنده صحیح وقال النيموي تقليدي فى آثار سنن: 358 ”و إسناد حسن“] ◈ معلوم ہوا کہ پڑھنے سے مراد صرف تدبر نہیں بلکہ ہونٹوں سے خفیہ آواز کے ساتھ پڑھنا ہے ورنہ امام سے پہلے ختم کرنے کا کیا مطلب ہے؟ سیدنا ابوہریرہ لانے کے علاوہ درج ذیل صحابہ و تابعین بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے: ① سیدنا عمر رضی اللہ عنہ [جزء القراء للبخاري: 51 وهو صحيح] ② سیدنا ابوسعیدالخدری رضی اللہ عنہ [جزء القراء للبخاري:11، 105 وسندہ حسن] ۔ ③ سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ [مصنف ابن ابي شيبه: 375/1 ح 3770 وسنده صحيح] ④ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ [مصنف ابن ابي شيبه: 375/1 ح 3773 وھو صحيح] ⑤ سیدنا انس رضی اللہ عنہ [كتاب القراء للبيهقي: 231 وسنده حسن] ⑥ سعید بن جبیر رحمہ اللہ [كتاب القراء للبيهقي: 123 وسنده حسن] ⑦ حسن بصری رحمہ اللہ [سنن الكبريٰ للبيهقي: 171/2، وسنده صحيح] ⑧ عامر الشعمی رحمہ اللہ [مصنف ابن ابي شيبه: 374/1 ح 3764 وسنده صحيح] ۔ ⑨ ابو الملیح اسامہ بن عمیر رحمہ اللہ [مصنف ابن ابي شيبه: 374/1 ح 3768 وسنده صحيح] ⑩ حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ [مصنف ابن ابي شيبه: 374/1 ح 3766 وسنده صحيح] ◄ امام شافعی، امام اوزاعی اور امام بخاری وغیرہم رحمہم اللہ فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے لہٰذا اسے منسوخ یا قرآن کے خلاف قرار دینا غلط ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: میری کتاب ”الكواكب الدريه فى وجوب الفاتحه خلف الامام فى الجبريہ“ اور ”نصر الباري فى تحقيق جز ء القراءة للبخاري“ ➋ حدیث بھی وحی ہے۔ ➌ نماز کی اصل سوره فاتحہ ہے یعنی اس کے بغیر نماز نمازنہیں ہے۔ ➍ حمد و ثناء سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ «وغير ذلك من الفوائد»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 139
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 910
´سورۃ الفاتحہ میں «بسم اللہ الرحمن الرحیم» کی قرأت چھوڑ دینے کا بیان۔` ابوسائب مولی ہشام بن زہرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں“، میں نے پوچھا: ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں؟) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبایا، اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سورۃ فاتحہ پڑھو، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے ۲؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی، اور جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ «اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 910]
910 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ناقص ہے، مکمل نہیں۔“ اور نماز مکمل پڑھنی چاہیے۔ «خداج» کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا نقص ہے جس کی موجودگی میں نماز غیر معتبر ہے کیونکہ یہ لفظ اس اونٹنی کے سلسلے میں بولا جاتا ہے جو وقت سے پہلے بچہ گرادے جس کی ابھی صورت نہ بنی ہو، یعنی ناقص الخلقت ہو۔ گویا مردہ جسے عرف عام کے لحاظ سے بچہ بھی نہیں کہا: جا سکتا۔ گویا اس نماز کی جس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے، اس لوتھڑے کی حیثیت ہے جو کسی بھی کام کا نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا نماز کی صحت کے لیے لازمی ہے۔ یہ وہ نقص نہیں جو لنگڑے پن، اندھے پن یا کانے پن کی طرح ہو۔ اور کبھی اس کا اطلاق اس تام الخلقت بچے پر بھی ہوتا ہے جو قبل از وقت پیدا ہو گیا ہو۔ ایسا بچہ بھی زندگی کے قابل نہیں ہوتا جبکہ یہاں پہلے معنی مراد ہیں کیونکہ ”غیرتمام“ کی تصریح موجود ہے۔ ➋ ”اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔“ یعنی آہستہ جو دوسروں کو سنائی نہ دے۔ اس سے مراد صرف تصور اور استحضار نہیں کیونکہ اسے پڑھنا نہیں کہتے اور یہاں پڑھنے کا لفظ صراحت سے ذکر ہے۔ ➌ ”نماز کو تقسیم کر دیا ہے۔“ حالانکہ نماز کو نہیں بلکہ صرف سورۂ فاتحہ کو تقسیم کیا ہے جیسا کہ صراحتاً ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ کو نماز کہا گیا ہے اور یہ اہم ترین رکن ہونے کی دلیل ہے اور رکن کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔ یہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا استدلال ہے۔ ویسے اگلی حدیث میں صریح الفاظ آرہے ہیں: «لا صلاةَ لِمَن لا يقرَأُ۔۔۔ الخ» ➍ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسے منفرد اور مقتدی دونوں کے لیے ضروری قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے یہی مسلک برحق ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ جب قرأت ہو رہی ہو تو مقتدی کو «انصات»”خاموشی“ کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آہستہ پڑھنا جو کسی کو سنائی نہ دیتا ہو، انصات کے منافی نہیں۔ جس آیت سے انصات کا حکم لیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ذکر ہے «وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ . . . الخ»[الأعراف 7: 205] خاموش تو رہو مگر دل میں، بلند آواز کے بغیر رب کو یاد کرتے رہو۔ صبح ہو یا شام (یعنی سب نمازوں میں سری ہوں یا جہری) اور غافل بن کر نہ کھڑے رہو۔ ثابت ہوا کہ آہستہ پڑھنا خاموشی کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین موافق ہے، لہٰذا دونوں پر عمل ہو گا، خصوصاً اگر امام سورت فاتحہ کی ہر آیت پڑھ کر وقفہ کرے جس میں مقتدی وہ آیت پرھ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آیت کے بعد ٹھہرتے تھے۔ [سنن أبي داود، الحروف والقراءات، حدیث: 4001، ومسندأحمد: 6ء302] ویسے بھی وہ آیت سورۂ فاتحہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی جیسا کہ مفسرین نے وضاحت کی ہے بلکہ یہ آیت کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تو کفارِمکہ شور مچاتے تھے تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں، پیر کرم شاہ بھیروی نے ضیاء القرآن میں اور مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے بھی تفسیر ماجدی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ اگر اس کے عموم کا لحاظ کرتے ہوئے، اسے نماز پر بھی محمول کریں، پھر بھی اس سے سورۂ فاتحہ کی قرأت کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا واضح نصوص سے استثنا ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔ ➎ ”مشترک ہے۔“ کیونکہ عبادت اللہ تعالیٰ کی اور شفاعت اپنے لیے۔ ➏ امام صاحب نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» سورۂ فاتحہ کا جز نہیں۔ اتنا استدلال تودرست ہو سکتا ہے کیونکہ اور بھی بعض لوگ اس موقف کے حامی ہیں، لیکن درست اور راجح بات یہی ہے کہ بسم للہ سورۂ فاتحہ کا جز ہے۔ البتہ دوسرا استدلال کہ سورۂ فاتحہ سے پہلے «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» نہ پڑھی جائے، درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» پڑھی اور لکھوائی ہے۔ تمام مصاحف میں ہر سورت سے پہلے (سوائے سورت توبہ کے) لکھی ہوئی ہے، لہٰذا ہر سورت سے پہلے پڑھی جائے گی، خواہ تبرکا ہی ہو۔ اسے نہ پڑھنا خلاف سنت اور مصحف کی خلاف ورزی ہے۔ مصحف (قرآن مجید) متواتر ہے جو شک و شبہ سے بالا ہے۔ ہاں! یہ بحث ہو سکتی ہے کہ آہستہ پڑھی جائے یا فاتحہ کی طرح اونچی آواز سے۔ احناف آہستہ اور شوافع جہر کے قائل ہیں۔ مالکیہ سرے سے «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ» پڑھنے کے قائل ہی نہیں، نہ سرًا نہ جہرًا، مگر یہ قول بلادلیل ہے۔ سروجہر کی بحث حدیث نمبر 906 میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 910
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2953
´سورۃ فاتحہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، وہ نماز ناقص ہے، نامکمل ہے ۱؎ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے کہا: ابوہریرہ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: فارسی لڑکے! اسے اپنے جی میں (دل ہی دل میں) پڑھ لیا کرو ۲؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۳؎ اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دی ہے۔ آدھی نماز میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2953]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جائے گی، کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
2؎: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات نبوی کے بعد حدیث کے سب سے بڑے راوی اور جانکار صحابی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ خواہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو پڑھنی فرض ہے اور یہ کہ یہ مسئلہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔
3؎: فرمایا تو تھا ”میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے، اور جب اس تقسیم کی تفصیل بیان کی تو سورہ فاتحہ کا نام لیا اور اس کی تقسیم بتائی، پتا چلا کہ نماز فاتحہ ہے، اور فاتحہ صلاۃ ہے، یعنی ”فاتحہ“ نماز کا ایسا رنگ ہے جو نماز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا آدھا حصہ اللہ کی حمد وثنا اور اس کی رحمت وربوبیت اور عدل وبادشاہت کے بیان میں ہے اور آدھا حصہ دعاء ومناجات پر مشتمل ہے جسے بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2953
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 878
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو وہ ادھوری اور ناقص ہے کامل نہیں ہے، تین مرتبہ فرمایا: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا، ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا اس کو آہستہ پڑھ لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا، ”اللہ کا فرمان ہے، میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرا بندہ جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:878]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: سورہ فاتحہ پورے قرآن مجید کا نچوڑ اور خلاصہ ہے، بلکہ اس کی اصل اور بنیاد ہے، اس بنا پر اس کو نماز کی ہر کعت میں مقرر کیا گیا ہے اور اس کو صلاۃ (نماز) کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کے بغیر نماز ادھوری اور ناقص ہے، اور اس بچے کی طرح ہے، جو اپنے اصل وقت سے پہلے ہی پیدا ہو جائے کہتے ہیں۔ (خدجت الدابة خداجا) جانور نے ادھورا بچہ گرا دیا اور اکثرآئمہ لغت نے خداج کا معنی نقصان کیا ہے۔