سفیان بن عیینہ نے علاء بن عبد الرحمن سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القریٰ کی قراءت نہ کی تو ناقص ہے۔“ تین مرتبہ فرمایا، یعنی پوری ہی نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا: اس کو اپنے دل میں پڑھ لو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے جب بندہ ﴿الحمد للہ رب العالمین﴾ ”سب تعریف اللہ ہی کے لیے جو جہانوں کا رب ہے۔“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی۔ اور جب وہ کہتا ہے: ﴿الرحمن الرحیم﴾ ”سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہمیشہ مہربانی کرنے والا۔“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ پھر جب وہ کہتا ہے: ﴿ مالک یوم الدین﴾ ”جزا کے دن کا مالک۔“ تو (اللہ) فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور ایک دفعہ فرمایا: میرے بندے نے (اپنے معاملات) میرے سپرد کر دیے۔ پھر جب وہ کہتا ہے: ﴿إیاک نعبد وإیاک نستعین﴾ ”ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔“ تو (اللہ) فرماتا ہے: یہ (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو مانگا، اس کا ہے اور جب وہ کہتا ہے: ﴿إہدنا الصراط المستقیم صراط الذین أنعمت علیہم غیر المغضوب علیہم والا الضالین﴾ ”ہمیں راہ راست دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ غضب کیے گئے لوگوں کی ہو اور نہ گمراہوں کی۔“ تو (اللہ) فرماتا ہے: یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کا ہے جو اس نے مانگا۔ سفیان نے کہا: مجھے یہ روایت علاء بن عبد الرحمن بن یعقوب نے سنائی، میں ان کے پاس گیا، وہ گھر میں بیمار تھے۔ میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا (تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو وہ ادھوری اور ناقص ہے کامل نہیں ہے، تین مرتبہ فرمایا: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا، ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا اس کو آہستہ پڑھ لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا، ”اللہ کا فرمان ہے، میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے، اور میرا بندہ جو مانگے گا اس کو ملے گا، جب انسان ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رب العالمین﴾ (شکرو ثنا کا حقدار کائنات کا آقا ہے) کہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف اور شکریہ ادا کیا، اور جب وہ ﴿الرَّحمٰنِ الرَّحِیم﴾، (انتہائی مہربان، بار بار رحم کرنے والا) کہتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ جب وہ ﴿مالک یوم الدِّیْن﴾، (حساب و کتاب کا مالک) کہتا ہے، اللّٰہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور بعض دفعہ (راوی نے کہا): بندے نے معاملات میرے سپرد کردیئے یا اپنے آپ کو میرے حوالہ کیا، جب انسان کہتا ہے، ﴿إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاكَ نَستَعِین﴾ (ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) اللہ فرماتا ہے، یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کو جو اس نے مانگا ملے گا، اور جب وہ کہتا ہے، ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ ہمیں راہ راست پر چلائے رکھ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو ان میں سے نہیں جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہ ہیں۔ اللہ فرماتا ہے، یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو ملے گا، جو اس نے مانگا۔ سفیان کہتے ہیں مجھے یہ روایت، علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب نے سنائی، وہ اپنے گھر میں بیمار تھے، میں ان کے پاس گیا، اور میں نے ان سے، اس حدیث کے بارے میں درخواست کی۔