بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر

بلوغ المرام
बुलूग़ अल-मराम
جنازے کے مسائل
जनाज़े के नियम
1. (أحاديث في الجنائز)
1. (جنازے کے متعلق احادیث)
१. “ जनाज़े के बारे में हदीसें ”
حدیث نمبر: 433
Save to word مکررات اعراب Hindi
وعن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال:«‏‏‏‏نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه» .‏‏‏‏ رواه احمد والترمذي وحسنه.وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال:«‏‏‏‏نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه» .‏‏‏‏ رواه أحمد والترمذي وحسنه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح قرض کے ساتھ اس وقت تک معلق (لٹکی) رہتی ہے جب تک اسے ادا نہیں کر دیا جاتا۔ احمد اور ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
हज़रत अबु हुरैरा रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मोमिन की रूह क़र्ज़ा (उधार) के साथ उस समय तक लटकी रहती है जब तक उसे लोटा दिया नहीं जाता ।” अहमद और त्रिमीज़ी ने इसे रिवायत किया है और त्रिमीज़ी ने इसे हसन ठहराया है ।

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلي الله عليه وسلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتي يقضي عنه، حديث:1078، وأحمد:2 /440، 475.»

Abu Hurairah (RAA) narrated that the Messenger of Allah said, "A believer‘s soul remains suspended according to his debt until it is settled or paid off on his behalf". Related by Ahmad and At-Tirmidhi.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: حسن

   سنن ابن ماجه2413عبد الرحمن بن صخرنفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه
   المعجم الصغير للطبراني365عبد الرحمن بن صخرنفس المؤمن معلقة ما كان عليه دين
   بلوغ المرام433عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه
   جامع الترمذي1078عبد الرحمن بن صخرنفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه
   جامع الترمذي1079عبد الرحمن بن صخرنفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 433 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 433  
لغوی تشریح:
«مُعَلَّقةٌ» ‏‏‏‏ «تَعٰلِيق» (باب تفعيل) سے ماخوذ ہے، یعنی جن نعمتوں اور انعامات کا وہ مستحق ہوتا ہے وہ اس کے لیے بند کر دی جاتی ہیں، نہ اس کی نجات کا فرمان جاری کیا جاتا ہے اور نہ اس کی ہلاکت کا۔
«بِدَيُنِهِ» ‏‏‏‏ دالپر فتحہ ہے۔ قرض اور ہر وہ چیز جس کا ادا کرنا مرنے والے کے ذمے واجب ہو۔
«‏‏‏‏حَتّٰي يُقْضٰي عَنْهُ» صیغہ مجہول ہے، یعنی تاوقتیکہ وہ قرض اس کی جانب سے ادا کر دیا جائے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق العباد مرنے والے سے معاف نہیں ہوتے تاوقتیکہ جس کا حق تھا وہ اسے ازخود معاف نہ کر دے یا کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا نہ کر دے۔ اسی طرح قرض کا بار اور بوجھ میت کے ذمے رہتا ہے جب تک کہ اس کی طرف سے ادا نہ ہو جائے، خواہ کوئی رشتہ ادا کرے یا احباب و رفقاء میں سے کوئی شخص یا ریاست اپنے شہری کی حیثیت سے اس کا قرض ادا کر دے۔ اس سے ذرا اس بات کا اندازہ لگائیں کہ یہ مال تو مرنے والے نے مالک کی رضا مندی سے واپسی کی نیت سے لیا تھا، جب تک اس کی ادائیگی نہیں ہوتی میت اسی قرض سے معلق رہتی ہے اور جن لوگوں نے دوسروں کی کوئی چیز یا مال فریب، دھوکے سے یا ڈاکا ڈال کر حاصل کیا ہو گا، ان کا کیا حشر ہو گا؟
➋ اگر مرنے والے نے اپنے پیچھے اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہو تو وارث سب سے پہلے اس کے مال میں سے قرض کی ادائیگی کے پاپند ہیں۔ اگر وہ مفلس و غریب تھا کہ ترکے میں ادائیگی قرض کے بقدر نہیں چھوڑا تو پھر اسلامی ریاست اس کے قرض ادا کرنے کی پاپند ہو گی۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا حق ہے اور جو کوئی قرض چھوڑ جائے، اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ [صحيح البخاري الاسقراض، حديث: 2398۔ وصحيح مسلم، الفرائض، حديث 1619]
اور کبھی یوں فرمایا: اس کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہے۔ [سنن ابن ماجه، ابواب الفرائض، حديث 2738]
اس سے معلوم ہوا کہ قرض کی معافی نہیں کیونکہ یہ حقوق العباد سے متعلق ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 433   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2413  
´قرض کی شناعت اور اس پر وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے ادائیگی کر دی جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2413]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لٹکنے کا مطلب ہے کہ مرنےکے بعد بھی اس پرادائیگی کی ذمے دار باقی رہتی ہے اور وہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا، اس لیے اسے پریشانی رہتی ہے۔
یا یہ مطلب ہے کہ اسے جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملتی۔

(2)
مالی حقوق میں نیابت درست ہے یعنی اگرکسی کی طرف سے ادائیگی کر دی جائے توقرض وغیرہ ادا ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کے ہاں بھی اس ذمے داری سے سبک دوش ہو جاتا ہے۔

(3)
فوت ہونے والے کا ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے اس کا قرض ادا کرنا چاہیے۔
اگر ترکہ کم ہو تو وارث اپنے پاس سےقرض ادا کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2413   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1079  
´مومن کی جان قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ وہ ادا نہ ہو جائے۔`
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ۱؎ ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہو جائے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1079]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا معاملہ موقوف رہتا ہے اس کی نجات یا ہلاکت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔

2؎:
یہ خاص ہے اس شخص کے ساتھ جس کے پاس اتنامال ہو جس سے وہ قرض ادا کرسکے رہا وہ شخص جس کے پاس مال نہ ہو اوروہ اس حال میں مرا ہوکہ قرض کی ادائیگی کا اس کا پختہ ارادہ رہا ہو توایسے شخص کے بارے میں حدیث میں واردہے کہ اس کا قرض اللہ تعالیٰ اداکردے گا۔

نوٹ:
(اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1079   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.