حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 258
´جلدی افطار کرنے میں خیر ہے` «. . . 410- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اس وقت تک خیر سے رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 258]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1957، من حديث مالك به، و مسلم 1098/48، من حديث ابي حازم به]
تفقه: ➊ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا اہل ایمان کی نشانی ہے۔ ➋ جو لوگ جان بوجھ کر دیر سے روزہ افطار کرتے ہیں وہ خیر پر نہیں بلکہ شر پر ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا یزال الدین ظاھرًا ما عجّل الناس الفطر لأن الیھود والنصاری یؤخرون۔» دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے کیونکہ یہودی اور عیسائی تاخیر کرتے ہیں۔ [سنن ابي داود: 2353 وسنده حسن، و صححه ابن خزيمه: 2060، وابن حبان، الموارد: 889، والحاكم عليٰ شرط مسلم 431/1 ووافقه الذهبي] ➌ جب سورج غروب ہوا تو (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے پاس والے شخص کو برتن دے کر کہا: پیو، پھر فرمایا: شاید تم «مُسَوِّفين»(دیر سے روزہ افطار کرنے والوں) میں سے ہو جو کہتے ہیں: تھوڑی دیر بعد، تھوڑی دیر بعد۔؟! [مصنف ابن ابي شيبه 13/3 ح 8958، و سنده صحيح، دوسرا نسخه 23/4 ح 9043] ◄ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے امراء کی طرف لکھ کر حکم بھیجتے تھے کہ روزہ افطار کرنے کے بارے میں مسوفین میں سے نہ ہونا اور نماز کے لئے ستاروں کے اکٹھ کا انتظار نہ کرنا۔ [ابن ابي شيبه 3/12 ح8946، وسنده حسن، دوسرا نسخه 4/21 ح9031] ➍ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: روزہ جلدی افطار کرنا سنت میں سے ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 13/3 ح 7954، و سنده صحيح] ➎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں اپنی اختراع شدہ ”احتیاط“ کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 410
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 534
´(روزے کے متعلق احادیث)` سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”لوگ اس وقت تک بھلائی پر قائم رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔“(بخاری و مسلم) اور ترمذی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے میرے بندوں میں میرے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو افطار کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔“[بلوغ المرام/حدیث: 534]
لغوی تشریح 534: مَاعَجَّلُو الفِطْرَ عَجَّلُو تعجیل سے ماخوذ ہے، مطلب یہ ہے کہ جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے، یعنی تحقیق سے جب یہ ثابت ہو جائے کہ سورج غروب ہو چکا ہے تو فورًا روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ افطار میں جلدی کرنااہلِ اسلام کا شعار ہے، جبکہ اہلِ کتاب تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ اس میں آسانی کا پہلو بھی ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کا بھی یہی تقاضا ہے، اس لیے شعائرِ اسلام کا احتمام کرنا، شریعت کی دی ہوئی سہولت کو لینا اور معاملات میں تکلیف و مشقت سے بچنا خیر و برکت کا باعث ہے اور یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔
فوائد و مسائل 534: ➊ جامع ترمذی کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندًا ضعیف قرار دیا ہے، البتہ سنن ابنِ ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسئلے کی بابت یوں مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اسوقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک روزہ جلدی کھولتے رہیں گے۔ روزہ جلدی کھولا کرو کیونکہ یہودی دیر کرتے ہیں۔“[سنن ابنِ ماجه، الصيام، حديث: 1698] بنابریں مطلع صاف ہو، گردوغبار اور ابر نہ ہو اور غروبِ آفتاب کا یقین ہو جائے تو پھر روزہ افطار کرنے میں بلاوجہ تاخیر کرنا جائز نہیں۔ ➋ تاخیر سے روزہ افطار کرنااہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے۔ اور شرح مصابیح میں یہ بھی ہے کہ افطاری میں تاخیر کرنااہلِ بدعت کی علامت ہے، لہٰذا غروبِ آفتاب کے فورًا بعد روزہ افطار کرلینا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 534
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 699
´افطار میں جلدی کرنے کا بیان۔` سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ برابر خیر میں رہیں گے ۱؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 699]
اردو حاشہ: 1؎: خیر سے مراد دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
2؎: افطار میں جلدی کریں گے، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے روزہ کھول لیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ آج کل احتیاط کے نام پر کیا جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 699
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2554
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ ہمیشہ خیرو خوبی سے متصف رہیں گے جب تک وہ روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2554]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان کے لیے دنیوی اوراخروی بہتری اور بھلائی کا راز اسلام کے اصول وضوابط کا اہتمام اور پابندی کرنے میں ہے اور ناکامی ونامرادی ان کے بارے میں افراط وتفریط اختیار کرنے میں ہے۔ جو انسان سحری کھانے میں تاخیر کرتا ہے اورروزہ کھولنے میں جلدی کرتا ہے۔ وقت ہونے کے بعد غلو اور افراط سے کام لیتے ہوئے تاخیر روا نہیں رکھتا تو وہ اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتا ہے خود شارع نہیں بنتا۔ اس لیے دنیا وآخرت کی بھلائیوں کی راہ پر گامزن رہتا ہے اور جادہ اعتدال سے محروم نہیں ہوتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2554
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1957
1957. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگ ہمیشہ خیر وبرکت اور نیکی پر رہیں گے جب تک وہ روز جلدی افطار کرتے رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1957]
حدیث حاشیہ: یعنی وقت ہو جانے کے بعد پھر افطار میں دیر نہ کرنا چاہئے۔ ابوداؤد نے ابوہریرہ ؓ سے نکالا یہود اور نصاریٰ دیر کرتے ہیں، حاکم کی روایت میں ہے کہ میری امت ہمیشہ میری سنت پر رہے گی جب تک روزہ کے افطار میں تارے نکلنے کا انتظار نہ کرگے گی۔ ابن عبدالر نے کہا روزہ جلد افطار کرنے اور سحری دیر میں کھانے کی حدیثیں صحیح اور متواتر ہیں۔ عبدالرزاق نے نکالا کہ آنحضرت ﷺ کے اصحاب سب لوگوں سے روزہ جلدی کھولتے اور سحری کھانے میں لوگوں سے دیر کرتے۔ مگر ہمارے زمانے میں عموماً لوگ روزہ تو دیر سے کھولتے ہی اور سحری جلدی کھالیتے ہیں اسی وجہ سے ان پر تباہی آرہی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا فرمانا درست تھا۔ جب سے مسلمانوں نے سنت پر چلنا چھوڑ دیا روز بروز ان کا تنزل ہوتا گیا۔ (وحیدی) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر أحادیث تعجیل الإفطارو تأخیر السحور صحاح متواترة و عند عبدالرزاق و غیرہ بإسناد صحیح عن عمرو بن میمون الأزدي قال کان أصحاب محمد صلی اللہ علیه وسلم أسرع الناس إفطاراً و أبطأهم سحوراً (فتح الباری) یعنی روزہ کھولنے کے متعلق احادیث صحیح متواتر ہیں۔ و اتفق العلماء علی أن محل ذلك إذا تحقق غروب الشمس بالرویة أو بإخبار عدلین و کذا عدل واحد في الأرجح قال ابن دقیق العید في هذا الحدیث رد علی الشیعة في تأخیرهم إلی ظهور النجوم (فتح) یعنی علماء کا اتفاق ہے کہ روزہ کھولنے کا وقت وہ ہے جب سورج کا غروب ہونا پختہ طو رپر ثابت ہو جائے یا دو عادل گواہ کہہ دیں، دو نہ ہوں تو ایک عادل گواہ بھی کافی ہے۔ اس حدیث میں شیعہ پر رد ہے جو روزہ کھولنے کے لیے تاروں کے ظاہر ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جو یہود و نصاری کا طریقہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے اپنی سخت ترین ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1957
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1957
1957. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگ ہمیشہ خیر وبرکت اور نیکی پر رہیں گے جب تک وہ روز جلدی افطار کرتے رہیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1957]
حدیث حاشیہ: یہودونصاریٰ روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے، اس لیے غروب آفتاب کے بعد احتیاط کے نام پر مزید انتظار کرنا شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ”لوگ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے دین ہمیشہ غالب رہے گا کیونکہ یہودونصاریٰ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ “(مسنداحمد: 2/450) حضرت عمرو بن میمون سے مروی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے صحابۂ کرام لوگوں میں سب سے زیادہ جلدی افطار کرنے والے اور تاخیر سے سحری کھانے والے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 238/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1957