سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
6. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى رُؤْيَةِ الْهِلاَلِ
6. باب: رویت ہلال (چاند دیکھنے) کی گواہی کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning the testimony that one has seen the crescent
حدیث نمبر: 1652
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عبد الله الاودي ، ومحمد بن إسماعيل ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، حدثنا زائدة بن قدامة ، حدثنا سماك بن حرب ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ابصرت الهلال الليلة، فقال:" اتشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله"، قال: نعم، قال:" قم يا بلال فاذن في الناس ان يصوموا غدا"، قال ابو علي: هكذا رواية الوليد بن ابي ثور، والحسن بن علي، ورواه حماد بن سلمة، فلم يذكر ابن عباس، وقال: فنادى ان يقوموا، وان يصوموا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبْصَرْتُ الْهِلَالَ اللَّيْلَةَ، فَقَالَ:" أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" قُمْ يَا بِلَالُ فَأَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا"، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: هَكَذَا رِوَايَةُ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، فَلَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَقَالَ: فَنَادَى أَنْ يَقُومُوا، وَأَنْ يَصُومُوا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رات میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بلال اٹھو، اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ لوگ کل روزہ رکھیں۔ ابوعلی کہتے ہیں: ایسے ہی ولید بن ابی ثور اور حسن بن علی کی روایت ہے، اس کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے، اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا اور کہا: تو بلال رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ لوگ قیام اللیل کریں (یعنی صلاۃ تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصوم 14 (2340، 2341)، سنن الترمذی/الصوم 7 (691)، سنن النسائی/الصوم 6 (2115)، (تحفة الأشراف: 6104)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم 6 (1734) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں سماک ہیں جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے)

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “A Bedouin came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘I have seen the new crescent tonight.’ He said: ‘Do you bear witness that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is the Messenger of Allah (ﷺ)?’ He said: ‘Yes.’ He said: ‘Get up, O Bilal, and announce to the people that they should fast tomorrow.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2340) ترمذي (691)نسائي (2114)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 439

   سنن النسائى الصغرى2114عبد الله بن عباسأتشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله قال نعم فنادى النبي أن صوموا
   سنن النسائى الصغرى2115عبد الله بن عباسأتشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله قال نعم قال يا بلال أذن في الناس فليصوموا غدا
   جامع الترمذي691عبد الله بن عباسأتشهد أن لا إله إلا الله أتشهد أن محمدا رسول الله قال نعم قال يا بلال أذن في الناس أن يصوموا غدا
   سنن أبي داود2340عبد الله بن عباسأتشهد أن لا إله إلا الله قال نعم قال أتشهد أن محمدا رسول الله قال نعم قال يا بلال أذن في الناس فليصوموا غدا
   سنن ابن ماجه1652عبد الله بن عباسأتشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله قال نعم قال قم يا بلال فأذن في الناس أن يصوموا غدا
   بلوغ المرام531عبد الله بن عباسان اعرابيا جاء إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: إني رايت الهلال

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1652 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1652  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
تاہم سنن ابوداؤد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آ گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے (اس خبر کے مطابق)
خود بھی روزہ رکھا۔
اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (سنن ابو داؤد، الصیام، باب الشھادۃ الواحد علی رویة ہلال رمضان، حدیث: 2342)
 محققین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی گواہی رمضان شروع ہونے کا یقین کرنے کے لئے کافی ہے۔

(2)
رویت ہلال کے مسئلے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔
کچھ اہل علم کی رائے یہ ہے۔
کہ اگر کسی بھی جگہ رمضان کےچاند کی شرعی طریقے سے رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کےلئے روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔
اور اگر اسی طرح کسی بھی جگہ شوال کے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمانوں کے لئے روزہ چھوڑنا لازم ہوجاتا ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔
بعض علمائے کی یہ رائے ہے کہ رمضان کے روزے اور شوال کی عید کے احکام ان کے لئے واجب ہوں گے۔
جو خود چاند دیکھ لیں۔
یا چاند دیکھنے والوں کا مطلع ایک ہوکیونکہ اہل معرفت یعنی ماہرین فلکیات کا اتفاق ہے کہ ہلال کے مطالع مختلف ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت کے مطابق عمل کرے۔
اور اس رویئت کے مطابق عمل ان ملکوں کےلئے واجب ہوگا جن کا مطلع ا س کے مطابق ہو اور جن ممالک کا مطلع اس کے مطابق نہ ہوگا وہ اس کے تابع نہ ہوں گے۔
یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام کے موقف کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ مطالع مختلف ہونے کی صورت میں محض عموم کی وجہ سے احکام ہلال ثابت نہ ہوں گے۔
بلاشبہ استدلال کے اعتبار سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اور موقف قوی ہے اور نظر قیاس سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے۔
دیکھئے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو: 161/2، مطبوعہ دارالسلام)
آجکل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے عیدین ار دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہوں سعودی عرب کی رویئت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں۔
اور اسی رویئت کو اپنے لئے قابل عمل قرار دیتے ہیں۔
اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا۔
لہٰذا سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں پیش کیا گیا تو ان علماء کی یہ رائے تھی کہ اس مسئلے میں راحج بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے۔
اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کرلیا جائے تو یہ جائز ہے۔
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
کہ میری رائے میں یہ ایک معتدل رائے ہے۔
اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال ودلائل میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔
آگے چل کر انھوں نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا ہے۔
کہ اہل علم پر واجب ہے۔
کہ ماہ کے آغاز و ا ختتام کے موقع پراس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ مبزول کریں۔
اور ایک بات پر متفق ہوجایئں جو انکے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو۔
پھر اسی کے مطابق عمل کریں۔
اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچا دیں۔
ان کےحکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں۔
اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریں کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجایئں گے۔
اور کثرت سے قیل وقال ہونے لگے گی۔
دیکھئے۔ (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/158۔ 159 مطبوعہ دارالسلام)
سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنی رویئت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے عیدیں اور دیگر عبادات بجالایئں۔
ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1652   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 531  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے چاند دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کیا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی الٰہ نہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال اٹھو اور لوگوں میں منادی کر دو کہ کل روزہ رکھا جائے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور نسائی نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 531]
لغوی تشریح 531:
فَأَذِّنْ تَأذِین سے ماخوذ امر کا صیغہ ہے۔ مراد اس سے عام اعلان اور منادی ہے۔ یہ حدیث مذہبِ جمھور کی تائید کرتی ہے کہ رمضان کے چاند کے لیے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔

فائدہ 531:
مذکورہ روایت سندًا ضعیف ہے جیسا کہ فاضل محقق نے اس طرف اشارہ کیا ہے، تاہم گزشتہ حدیث جو کہ سنن ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، اسے محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ وہ حدیث یوں ہے، ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ مجھے چاند نظر آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس خبر کے مطابق) خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [ سنن ابي داؤد، الصيام، باب فى شهادة الواحد على رؤية هلال رمضان، حديث: 2342]
لہٰذا معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی گواہی ہی رمضان شروع ہونے کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے۔ «والله اعلم»

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 531   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2114  
´ماہ رمضان کے چاند (دیکھنے) پر ایک آدمی کی گواہی قبول کرنے کا بیان اور سماک (والی) حدیث میں راویوں کے سفیان پر اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور) کہنے لگا: میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ نے کہا: کیا تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں روزہ رکھنے کا اعلان کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2114]
اردو حاشہ:
(1) معلوم ہوتا ہے چاند کا دیکھنا اور خبر مل جانا برابر ہیں۔ بشرطیکہ مطلع ایک ہو جیسا کہ پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہوا۔
(2) ماہ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں جمہور اہل علم کا قول یہی ہے کہ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے جیسا کہ حدیث میں واضح ہے اور یہی صحیح ہے، البتہ بعض فقہاء گواہی کے مدنظر دو مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن عید کے بارے میں ائمہ اربعہ میں اتفاق ہے کہ دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لوگوں کا اپنا مفاد بھی ہوتا ہے، لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں بھی دو گواہ ہونے چاہئیں جبکہ روزے میں لوگوں کا ذاتی مفاد نہیں، لہٰذا وہاں ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کیونکہ یہ خبر ہے شہادت (گواہی) نہیں اورخبر کے لیے ایک معتبر شخص کافی ہے۔
(3) تو گواہی دیتا ہے؟ گویا مسلمان ہونا ضروری ہے، نیز وہ قابل اعتبار بھی ہو، یعنی جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو اور فرائض شرع کا پابند ہو، دین کو مذاق نہ بناتا ہو۔
(4) یہ اور آئندہ تینوں روایات ضعیف ہیں لیکن ابوداؤد (حدیث: 2342) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی صحیح حدیث موجود ہے، اس لیے حدیث میں بیان کردہ مسئلہ اور دیگر مستنبط مسائل درست ہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2114   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 691  
´چاند دیکھنے کی گواہی پر روزہ رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: بلال! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 691]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(عکرمہ سے سماک میں روایت میں بڑا اضطراب پایا جاتا ہے،
نیز سماک کے اکثر تلامذہ نے اسے عن عکرمہ عن النبی ﷺ...مرسلاََ روایت کیا ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 691   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.