ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سو گئے، اور فجر کی سنتیں نہ پڑھ سکے، تو ان کی قضاء سورج نکلنے کے بعد کی۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی دو رکعت سنت کی قضا سورج نکلنے کے بعد بھی جائز ہے، یہی ثوری، احمد، اسحاق، اور ابن مبارک کا مذہب ہے، امام محمد کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک زوال تک ان کی قضا پڑھ لینا بہتر ہے۔
ليأخذ كل رجل برأس راحلته فإن هذا منزل حضرنا فيه الشيطان قال ففعلنا ثم دعا بالماء فتوضأ ثم سجد سجدتين وقال يعقوب ثم صلى سجدتين ثم أقيمت الصلاة فصلى الغداة
اكلأ لنا الليلة قال فصلى بلال ثم تساند إلى راحلته مستقبل الفجر فغلبته عيناه فنام فلم يستيقظ أحد منهم وكان أولهم استيقاظا النبي فقال أي بلال فقال بلال بأبي أنت يا رسول الله أخذ بنفسي الذي أخذ بنفسك فقال رسول الله اقتادوا ثم أناخ فتوضأ فأقام الصلاة ثم صلى م
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1155
اردو حاشہ: فائده: اس سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتیں رہ جایئں تو سورج طلوع ہونے کے بعد بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ تاہم انھیں قضا قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لینا بہتر ہے کیونکہ وہ نماز فجر کا ہی ایک حصہ ہیں۔ جنھیں فجر کے وقت ہی میں پڑھ لیا گیا تو قضا نہیں ہوئیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1155
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3163
´سورۃ طہٰ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹے، رات کا سفر اختیار کیا، چلتے چلتے آپ کو نیند آنے لگی (مجبور ہو کر) اونٹ بٹھایا اور قیام کیا، بلال رضی الله عنہ سے فرمایا: ”بلال! آج رات تم ہماری حفاظت و پہرہ داری کرو“، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: بلال نے (جاگنے کی صورت یہ کی کہ) نماز پڑھی، صبح ہونے کو تھی، طلوع فجر ہونے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کجاوے کی (ذرا سی) ٹیک لے لی، تو ان کی آنکھ لگ گئی، اور وہ سو گئے، پھر تو کوئی اٹھ نہ سکا، ان سب میں سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3163]
اردو حاشہ: 1؎: مجھے یاد کرنے کے لیے صلاۃ پڑھو (طہٰ: 14)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3163
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1561
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا اور ہم سورج نکلنے تک بیدار نہ ہو سکے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہر انسان اپنی سواری کا سر پکڑ لے یعنی لگا یا مہار پکڑ کر چل پڑے۔ کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جس میں ہمارے ساتھ شیطان آ گیا ہے۔“ ہم نے آپﷺ کے حکم پر عمل کیا۔ پھر آپﷺ نے پانی منگوایا۔ پھر آپﷺ نے وضو کر کے دو رکعتیں (سنت) پڑھیں۔ پھر جماعت کھڑی کی گئی (اقامت کہی گئی) اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1561]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اگرمشترکہ طور پر نماز فوت ہو جائے تو وقت ملتے ہی اس کے لیے اہتمام کیا جائے گا۔ اذان کہہ کر سنتیں پڑھی جائیں گی۔ پر اقامت کہہ کر جماعت کروائی جائے گی۔ اگرنمازیں ایک سے زائد فوت ہو جائیں تو پہلی نماز کے لیے اذان اور اقامت دونوں ہیں۔ بعد والی نمازوں کے لیے اختیار ہے ہر ایک کےلیے اذان اور اقامت کہہ لیں یا صرف اقامت پر اکتفا کر لیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ ہر نماز کے لیے اذان کے قائل ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ آخری قول میں اذان کے قائل نہیں۔ 2۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنتوں کی قضائی بہتر ہے۔ سنتیں نماز کےساتھ رہ گئی ہوں یا صرف سنتیں باقی ہوں اور احناف کے نزدیک اگرصرف سنتیں رہ گئی ہوں توان کی قضا نہیں ہے۔ فرضوں کےساتھ قضاء ہے۔