سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثمامہ حنفی قیدی بنا لیے گئے (اور مسجد نبوی میں ستون سے باندھ دیے گئے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح اُس کے پاس جاتے اور فرماتے کہ ثمامہ، تمہارے پاس کیا ہے؟ تو وہ کہتا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مجھے) قتل کریں گے تو خون والے کو قتل کریں گے (کہ جس کا بدلہ لیا جائے گا) اور اگر احسان کرو گے تو شکر گزار پر احسان کرو گے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت چاہتے ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں گے دے دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام فدیہ لینا پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اس کو قتل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کریں گے (یعنی اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا) چنانچہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اس پر احسان کیا (اور اُسے رہا کردیا) تو وہ مسلمان ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے کھول دیا اور اُسے سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے باغ میں بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے غسل کرنے کا حکم دیا تو اُس نے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ تو بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بھائی کا اسلام بہت خوب ہے۔“