جناب سفی اصجی بیان کرتے ہیں کہ وہ مدینہ منوّرہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کے پاس کافی لوگ جمع ہیں۔ تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ لہٰذا میں اُن کے قریب جاکر اُن کے سامنے بیٹھ گیا، جبکہ وہ لوگوں کو حدیث بیان کر رہے تھے۔ پھر جب خاموش ہوئے اور اکیلے رہ گئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم اور اس کے حق کا واسطہ دیکر گذارش کرتا ہوں کہ آپ مجھے وہ حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہو اور آپ اسے بخوبی جانتے ہوں۔ توسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایسی ہی حدیث سناوَں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور یاد رکھی ہے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سسکیاں لیکر رونے لگے اور بیہوش ہو گئے پھر تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو فرمانے لگے، میں تمہیں ضرور ایسی حدیث سناؤں گا جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی جبکہ میں اور آپ اس گھر میں اکیلے موجود تھے۔ پھر دوسری بار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سسکیاں لیکر رونا شروع کردیا اور بیہوش ہو گئے۔ پھر ہوش میں آئے اور اپنے چہرے کو صاف کیا۔ پھر فرمایا کہ میں تمہیں حدیث سناتا ہوں، میں ضرور تمہیں ایسی حدیث سناؤں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس وقت سنائی تھی جب میں اور آپ اس گھر میں اکیلے ہی تھے ہمارے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شدید سسکیاں لیکر رونے لگے پھر بیہوش ہو کر مُنہ کے بل گرگئے اور میں دیر تک آپ کو سہارا دیکر بیٹھا رہا۔ پھر جب ہوش میں آئے تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا: ”جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان فیصلے کے لئے تشریف لائیگا۔ جبکہ ہر اُمّت گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوگی۔ سب سے پہلے قاری قرآن کو بلایا جائیگا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کو جو شہید ہوا تھا اور دولت مند شخص کو بلایا جائیگا الله تعالی قاری سے فرمائے گا، کیا میں نے تمھیں وہ کتاب نہیں سکھائی تھی جو میں نے اپنے رسول پر نازل کی تھی؟ وہ کہے گا کہ کیوں نہیں اے میرے رب، تو اللہ تعالی فرمائے گا تو تم نے علم حاصل کرنے کے بعد کیا عمل کیا؟ وہ جواب دیگا کہ میں دن رات نماز میں اس کی تلاوت کرتا تھا تو اللہ تعالی فرمائے گا تم نے جھوٹ بولا ہے۔ اور فرشتے بھی کہیں گے تم نے جھوٹ کہا ہے۔ اور اللہ تعالی فرمائے گا، بلکہ تم تو یہ چاہتے تھے کہ کہا جائے، فلاں بہت بڑا قاری ہے۔ تو یہ بات تو (دنیا میں) کہہ دی گئی تھی۔ اور مالدار شخص کو لایا جائیگا تو اللہ تعالی فرمائے گا، کیا میں نے تمھیں اتنا مال و دولت عطا نہیں کیا تھا کہ تم کسی شخص کے محتاج نہیں رہے تھے؟ وہ جواب دیگا کہ ضرور ایسا ہوا تھا۔ الله تعالی فرمائے گا تو تم نے میرے عطا کیے ہوئے مال میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں اس مال سے صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا۔ تو اللہ تعالی اور اس کے فرشتے کہیں گے، تم نے جھوٹ بولا ہے اللہ تعالی فرمائے گا، بلکہ تمھارا ارادہ تو یہ تھا کہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص بڑا سخی ہے تو وہ کہہ دیا گیا تھا۔ پھر اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے مجاہد کو لایا جائیگا تو اس سے پوچھا جائیگا کہ تم نے کس مقصد کے لئے جان دی؟ تو وہ کہے گا کہ اللہ تُو نے اپنے راستے میں جہاد کرنے کا حُکم دیا تھا تو میں نے جنگ لڑی تھی کہ میں قتل ہوگیا تو اللہ تعالی فرمائے گا، تم نے جھوٹ بولا ہے۔ اور فرشتے بھی کہیں گے تم جھوٹے ہو اور اللہ تعالی فرمائے گا، بلکہ تمھارا ارادہ تو یہ تھا کہ کہا جائے، فلاں شخص بڑا بہادر ہے تو دنیا میں یہ کہہ دیا گیا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مارکر فرمایا کہ اے ابو ہریرہ، یہ تین افراد وہ پہلے اللہ کی مخلوق ہوںگے جن سے قیامت کے دن جہنّم کی آگ بھڑکائی جائیگی۔ جناب عقبہ کہتے ہیں کہ جناب شفی نے ہی یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہو کر بیان کی تھی۔ جناب العلاء بن ابی حکیم بیان کرتے ہیں کہ شفی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے جلاد تھے ایک شخص نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوکر یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی «مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ، أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ» [ سورة هود: 16،15 ]”جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے تو ہم ان کے اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں۔ اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، اور وہ برباد ہوگیا جوکچھ انہوں نے دنیا میں کمایا تھا اور جو وہ عمل کرتے رہے، ضائع ہوگئے۔“