1727. (172) بَابُ ذِكْرِ أَوَّلِ صَدَقَةٍ مُحْبَسَةٍ تُصُدِّقَ بِهَا فِي الْإِسْلَامِ، وَأشْرَاطِ الْمُتَصَدِّقِ صَدَقَةَ الْمَحْرُمَةِ حَبْسَ أُصُولِ الصَّدَقَةِ وَالْمَنْعِ مِنْ بَيْعِ رِقَابِهَا وَهِبَتِهَا وَتَوْرِيثِهَا، وَتَسْبِيلِ مَنَافِعِهَا وَغَلَّاتِهَا عَلَى الْفُقَرَاءِ، وَالْقُرْبَى، وَالرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّعِيفِ
1727. اسلام میں وقف کیے جانے والے پہلے صدقے کا بیان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین و باغات ملے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے حاضر ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے خیبر میں جو زمین حاصل کی ہے اس جیسا قیمتی مال کبھی مجھے نہیں ملا تو آپ اس کے متعلق مجھے کیا حُکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اس زمین کی اصل ملکیت اپنے پاس رکھ کر اس کے فوائد و ثمرات کا صدقہ کردو۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو اس شرط پر صدقہ کردیا کہ اس کی اصل فروخت نہیں کی جائیگی نہ ہبہ کی جائیگی، نہ میراث بنائی جائیگی، انہوں نے اس کے فوائد وثمرات کو فقراء رشتہ داروں، گردنیں آزاد کرانے، مجاہدین فی سبیل اللہ، مسافروں اور کمزورلوگوں کے لئے صدقہ کردیا، جو شخص اس کی نگرانی کریگا وہ اس میں سے معروف طریقے سے کھا سکتا ہے اور اپنے دوست و احباب کو بھی کھلا سکتا ہے مگر دولت اکٹھی کرنے والا نہ ہو (اپنی ملکیت نہ بنائے) جناب ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے یہ روایت محمد کو بیان کی تو انہوں نے کہا کہ ”غير متأمل مالا“ وہ مال کا خواہش مند اور امید وارنہ ہو۔ جناب ابن عون کہتے ہیں کہ مجھے کتاب پڑھنے والے شخص نے ”غير متأثل مالا“ وہ (مال جوڑنے والا نہ ہو) کے الفاظ بیان کیئے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ عبداللہ عمر العمری نے امام نافع کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا وقف ہونے والا صدقہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا صدقہ ہے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بیشک میرے پاس کچھ مال ہے اور میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا اصل اپنی ملکیت میں کرلو اور اس کا پھل و ثمرات صدقہ کردو۔“ لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (یہ وقف نامہ) لکھدیا۔