سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
99. باب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
99. باب: توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3535
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، قال: اتيت صفوان بن عسال المرادي اساله عن المسح على الخفين، فقال: ما جاء بك يا زر؟ فقلت: ابتغاء العلم، فقال: " إن الملائكة لتضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب، فقلت: إنه حك في صدري المسح على الخفين بعد الغائط والبول وكنت امرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فجئت اسالك هل سمعته يذكر في ذلك شيئا؟ قال: نعم، " كان يامرنا إذا كنا سفرا او مسافرين ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة، لكن من غائط وبول ونوم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فقلت: هل سمعته يذكر في الهوى شيئا؟ قال: نعم، فقلت: هل سمعته يذكر في الهوى شيئا؟ قال: نعم، كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فبينا نحن عنده إذ ناداه اعرابي بصوت له جهوري، يا محمد، فاجابه رسول الله صلى الله عليه وسلم نحوا من صوته هاؤم، فقلنا له: ويحك، اغضض من صوتك فإنك عند النبي صلى الله عليه وسلم وقد نهيت عن هذا، فقال: والله لا اغضض، قال الاعرابي: المرء يحب القوم ولما يلحق بهم؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب يوم القيامة "، فما زال يحدثنا حتى ذكر بابا من قبل المغرب مسيرة سبعين عاما عرضه، او يسير الراكب في عرضه اربعين او سبعين عاما، قال سفيان: قبل الشام، خلقه الله يوم خلق السموات والارض مفتوحا يعني للتوبة، لا يغلق حتى تطلع الشمس منه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا زِرُّ؟ فَقُلْتُ: ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، فَقَالَ: " إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ حَكَّ فِي صَدْرِي الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَكُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، " كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، لَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جَهْوَرِيٍّ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ، فَقُلْنَا لَهُ: وَيْحَكَ، اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ فَإِنَّكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَغْضُضُ، قَالَ الْأَعْرَابِيُّ: الْمَرْءُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، فَمَا زَالَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى ذَكَرَ بَابًا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا عَرْضُهُ، أَوْ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي عَرْضِهِ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ عَامًا، قَالَ سُفْيَانُ: قِبَلَ الشَّامِ، خَلَقَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مَفْتُوحًا يَعْنِي لِلتَّوْبَةِ، لَا يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا: علم کی تلاش و طلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب و تلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے؟ کہا: جی ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پر ہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں، مگر غسل جنابت کے لیے، پاخانہ پیشاب کر کے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں، (پہنے رہیں، مسح کا وقت آئے ان پر مسح کر لیں) میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد! کہہ کر بلند آواز سے پکارا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا، آ جاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا: تمہارا ناس ہو، اپنی آواز دھیمی کر لو، کیونکہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو، اور تمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلند آواز سے بولا جائے، اعرابی نے کہا: (نہ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا، اس نے «المرء يحب القوم ولما يلحق بهم» ۱؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المرء مع من أحب يوم القيامة» جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا۔ وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت (مغرب کی طرف) میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہو گیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہو گی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وضاحت:
۱؎: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 96 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (4 / 73)، وتقدم بعضه برقم (96)

   سنن النسائى الصغرى126صفوان بن عساللا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن
   سنن النسائى الصغرى127صفوان بن عسالنمسح على خفافنا ولا ننزعها ثلاثة أيام من غائط وبول ونوم إلا من جنابة
   سنن النسائى الصغرى158صفوان بن عساللا ننزعه ثلاثا إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   سنن النسائى الصغرى159صفوان بن عساللا ننزعه ثلاثا إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   جامع الترمذي3535صفوان بن عسالثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة لكن من غائط وبول ونوم
   جامع الترمذي96صفوان بن عساللا ننزع خفافنا ثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   جامع الترمذي3536صفوان بن عساللا نخلع خفافنا ثلاثا إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   سنن ابن ماجه478صفوان بن عساللا ننزع خفافنا ثلاثة أيام إلا من جنابة لكن من غائط وبول ونوم
   صحيح ابن خزيمة17صفوان بن عسالثلاثة أيام ولياليهن إلا من جنابة ولكن من غائط وبول ونوم
   المعجم الصغير للطبراني99صفوان بن عسالثلاثة أيام للمسافر ولا ينزع من غائط ولا بول ولا نوم يوما للمقيم
   المعجم الصغير للطبراني103صفوان بن عسالمسح على الخفين ثلاثة أيام ولياليهن المقيم يوم وليلة
   بلوغ المرام56صفوان بن عسالان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة،‏‏‏‏ ولكن من غائط وبول ونوم
   المنتقى ابن الجارود4صفوان بن عسالولا ننزع من غائط، ولا بول، ولا نوم

   جامع الترمذي2387صفوان بن عسالالمرء مع من أحب
   جامع الترمذي3536صفوان بن عسالالمرء مع من أحب
   جامع الترمذي3535صفوان بن عسالالمرء مع من أحب يوم القيامة
   المعجم الصغير للطبراني670صفوان بن عسالالمرء مع من أحب

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3535 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3535  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3535   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3536  
´توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔`
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تمہیں کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ فرشتے طالب علم کے کام (و مقصد) سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: میرے جی میں یہ خیال گزرا یا میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ بات کھٹکی، تو کیا اس بارے میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم جب سفر میں ہوں (یا سفر کرنے و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3536]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
(الأنعام:158)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3536   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.