جناب حطان بن عبد اللہ رقاشی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی، جب وہ اپنی نماز کے آخر میں بیٹھے تو ایک شخص نے کہا کہ نماز نیکی اور زکوٰۃ کے ساتھ ملائی گئی ہے (قرآن مجید میں ان کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا ہے)۔ پھر جب سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ یہ کلمات کس شخص نے کہے ہیں؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہیں اپنی نماز میں کون سے کلمات کہنے ہیں؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو ہمیں سنّتیں بیان کیں اور ہمیں ہماری نماز سکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں درست اور سیدھی کیا کرو، اور تم میں سے ایک شخص کو امامت کرانی چاہیے، پھر جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب وہ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ » پڑھے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا اور جب امام تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو۔ کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے سر اُٹھاتا ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس کے برابر ہو جائے گا (تمہارا دیر سے رکوع میں جانا اور بعد میں اُٹھنا) - جب وہ تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، بلاشبہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے اور تم سے پہلے سجدے سے سر اُٹھاتا ہے - جناب بندار کی روایت میں اضافہ ہے کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس کے بدلے میں ہو جائے گا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ کی مراد یہ ہے کہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے، تم پر سبقت لے جاتا ہے اور تم رکوع سے اپنے سر اس کے سر اُٹھانے کے بعد اُٹھاتے ہو، اس طرح تم رکوع میں (اس کے بعد بھی کچھ دیر) ٹھہرتے ہو۔ اس طرح امام کے رکوع سے سر اُٹھا لینے کے بعد رکوع میں ٹھہرنا یہ اس سبقت کے بدلے میں ہو جائے گا، جو امام مقتدیوں سے رکوع و سجود میں کرتا ہے۔