سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
(Abwab Us Salam )
163. باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ
163. باب: آدمی کسی سے کہے ”اللہ مجھے آپ پر فدا کرے“ تو کیسا ہے؟
Chapter: Saying "may Allah make me your ransom".
حدیث نمبر: 5226
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل , حدثنا حماد , حدثنا و مسلم , حدثنا هشام , عن حماد يعنيان ابن ابي سليمان , عن زيد بن وهب , عن ابي ذر , قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ابا ذر , فقلت: لبيك وسعديك يا رسول الله , وانا فداؤك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , حَدَّثَنَا و مُسْلِمٌ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ حَمَّادٍ يَعْنِيَانِ ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ , قَالَ: قال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ , فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَأَنَا فِدَاؤُكَ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پکارا: اے ابوذر! میں نے کہا: میں حاضر ہوں حکم فرمائیے اللہ کے رسول! میں آپ پر فدا ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11917) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Dharr: The Prophet ﷺ addressed me, saying: O Abu Dharr! I replied: At thy service and at thy pleasure, Messenger of Allah! may I be ransom for thee.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5207


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
حماد بن أبي سليمان عنعن
وحديث البخاري (6268) و مسلم (94 بعد 921) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 181

   صحيح البخاري6443جندب بن عبد اللهالمكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ذلك جبريل عرض لي في جانب الحرة قال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم قال قلت وإ
   صحيح مسلم2305جندب بن عبد اللهالمكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة فقال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة فقلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم قال قلت وإن سرق وإن
   سنن أبي داود5226جندب بن عبد اللهيا أبا ذر فقلت لبيك وسعديك يا رسول الله وأنا فداؤك
   سنن ابن ماجه4130جندب بن عبد اللهالأكثرون هم الأسفلون يوم القيامة إلا من قال بالمال هكذا وهكذا وكسبه من طيب

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 5226 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5226  
فوائد ومسائل:
یہ کلمہ میں تجھ پر واری قربان یا فدا معمولی کلمہ نہیں ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے وہیں استعمال ہونا چاہیے جہاں دنیا اور آخرت کی سعادت ہو۔
مثلا صالح ماں، باپ یا راسخ فی العلم ربانی علماء جو دین کے صحیح معنی میں معلم اور داعی ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5226   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4130  
´مالداروں کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ مال والے لوگ قیامت کے دن سب سے کمتر درجہ والے ہوں گے، مگر جو مال کو اس طرح اور اس طرح کرے اور اسے حلال طریقے سے کمائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4130]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
سخاوت سے اس شخص کو فائدہ ہوسکتا ہے جس کی کمائی حلال ہولہٰذا حرام کمائی سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4130   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2305  
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چلے جا رہے ہیں آپﷺ کے ساتھ کوئی شخص نہیں ہے تو میں نے خیال کیا آپﷺ اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، تو میں چاند کے سایہ میں چلنے لگا۔ آپﷺ نے مجھے مڑ کر دیکھ لیا۔ اور فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا ابو ذر ہوں، اللہ مجھے آپﷺ پر قربان کرے۔ آپﷺ نے فرمایا: (ابو ذر! آ جاؤ) تو میں آپﷺ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مالداروں کو اپنا وافرمال ہر قسم کے نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے اگر وہ قیامت کے دن بلند مراتب پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔
مگر اگر وہ اپنا مال وجوہ خیر اور اسلام اور اہل اسلام کی بہتری اور مفادات کے حصول کے لیے کھلے دل سے ہر وقت اور ہر موقع پر اپنی قدرت کے مطابق خرچ نہیں کریں گے۔
تو وہ اعلیٰ درجات سے محروم رہیں گے۔
(2)
توحید کا اصل خاصہ اور خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح حق ادا کرے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا لیکن اگر اس کے حقوق کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی کی تو اس خاصہ اور امتیاز کے ظہور میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور اس رکاوٹ کے ازالہ تک دوزخ میں رہنا پڑے گا اور آخر کار دوزخ سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
(3)
چوری اور زنا انتہائی قبیح جرائم ہیں جو دوسروں کے مال اور عزت و ناموس پر ڈاکہ زنی ہیں اس لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے تعجب کے انداز میں پوچھا:
چوری اور زنا کا مرتکب بھی جنت میں چلا جائے گا تو جبریل نے جواب دیا۔
ایسا انسان بھی جنت سے محروم نہیں رہے گا۔
بلکہ ان سے بڑھ کر جرم شراب نوشی کا مرتکب بھی موحد ہونے کی صورت میں جنت سے محروم نہیں رہے گا۔
حالانکہ شرابی ہر قسم کی شرم و حیا سے عاری ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2305   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6443  
6443. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ہی جا رہے ہیں، اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو پسند نہیں کرتے ہوں گے، اس لیے میں چاند کے سائے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ نے میری طرف توجہ فرمائی تو مجھے دیکھ کر فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ابوذر ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! آپ نے فرمایا: ابوذر! آگے آجاؤ۔ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: بلاشبہ جو لوگ دنیا میں زیادہ مال دار ہیں وہی قیامت کے دن نادار ہوں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرے اور اسے اچھے کاموں میں صرف کرے۔ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ نے فرمایا: یہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6443]
حدیث حاشیہ:
زید بن وہب کی سند کے بیان کرنے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کر دیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6443   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6443  
6443. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ہی جا رہے ہیں، اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو پسند نہیں کرتے ہوں گے، اس لیے میں چاند کے سائے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ نے میری طرف توجہ فرمائی تو مجھے دیکھ کر فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ابوذر ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! آپ نے فرمایا: ابوذر! آگے آجاؤ۔ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: بلاشبہ جو لوگ دنیا میں زیادہ مال دار ہیں وہی قیامت کے دن نادار ہوں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرے اور اسے اچھے کاموں میں صرف کرے۔ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ نے فرمایا: یہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6443]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا تھا کہ آخرت کی دشوار گزار گھاٹیوں کو وہی لوگ عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے، اس لیے اکثر صحابہ فقر و فاقے کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
(صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آدم کا بیٹا ناپسند کرتا ہے:
انسان موت کو ناپسند کرتا ہے، حالانکہ موت اہل ایمان کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے۔
(مسند أحمد: 427/5) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مال دار لوگ قیامت کے دن اسی قدر زیادہ نادار ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے مال آخرت بنانے کے بجائے اسے اپنی سج دھج اور ٹھاٹھ باٹھ میں خرچ کر دیا، اس لیے قیامت کے دن وہ درج ذیل آیت کا مصداق ہوں گے:
تم نے اپنی چیزیں دنیا کی زندگانی میں حاصل کر لیں اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا، اس لیے آج تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(الأحقاف: 20)
یہی وجہ ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے نافرمان دنیاوی اعتبار سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6443   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.