صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
13. بَابُ الْمُكْثِرُونَ هُمُ الْمُقِلُّونَ:
13. باب: جو لوگ دنیا میں زیادہ (مالدار) ہیں وہی آخرت میں کم ہوں گے۔
(13) Chapter. The rich (who do not spend their wealth on good deeds) are infact the poor (i.e., little rewarded).
حدیث نمبر: Q6443
Save to word اعراب English
وقوله تعالى: من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم اعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون {15} اولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون {16} سورة هود آية 15-16.وَقَوْلُهُ تَعَالَى: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ {15} أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {16} سورة هود آية 15-16.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ہود میں) فرمایا «‏‏‏‏من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون * أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون‏» جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے تو ہم اس کے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں اس کو بھر پور دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے لیے کسی طرح کی کمی نہیں کی جاتی یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں دوزخ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں کیا وہ (آخرت کے حق میں) بیکار ثابت ہوا اور جو کچھ (اپنے خیال میں) وہ کرتے ہیں سب بیکار محض ہے۔

حدیث نمبر: 6443
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن عبد العزيز بن رفيع، عن زيد بن وهب، عن ابي ذر رضي الله عنه، قال: خرجت ليلة من الليالي، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي وحده وليس معه إنسان، قال: فظننت انه يكره ان يمشي معه احد، قال: فجعلت امشي في ظل القمر فالتفت فرآني، فقال: من هذا، قلت: ابو ذر، جعلني الله فداءك، قال: يا ابا ذر، تعاله، قال: فمشيت معه ساعة، فقال:" إن المكثرين هم المقلون يوم القيامة، إلا من اعطاه الله خيرا، فنفح فيه يمينه، وشماله، وبين يديه، ووراءه، وعمل فيه خيرا"، قال: فمشيت معه ساعة، فقال لي: اجلس ها هنا، قال: فاجلسني في قاع حوله حجارة، فقال لي:" اجلس ها هنا حتى ارجع إليك، قال: فانطلق في الحرة حتى لا اراه، فلبث عني، فاطال اللبث، ثم إني سمعته وهو مقبل وهو يقول:" وإن سرق وإن زنى"، قال: فلما جاء لم اصبر حتى قلت: يا نبي الله، جعلني الله فداءك من تكلم في جانب الحرة، ما سمعت احدا يرجع إليك شيئا، قال:" ذلك جبريل عليه السلام عرض لي في جانب الحرة، قال: بشر امتك انه من مات لا يشرك بالله شيئا، دخل الجنة، قلت: يا جبريل، وإن سرق وإن زنى قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق، وإن زنى، قال: نعم، وإن شرب الخمر"، قال النضر، اخبرنا شعبة، حدثنا حبيب بن ابي ثابت، والاعمش، وعبد العزيز بن رفيع، حدثنا زيد بن وهب، بهذا. قال ابو عبد الله: حديث ابي صالح، عن ابي الدرداء مرسل، لا يصح إنما اردنا للمعرفة، عن ابي الدرداء، قال: مرسل ايضا لا يصح، والصحيح حديث ابي ذر، وقال: اضربوا على حديث ابي الدرداء، هذا إذا مات، قال: لا إله إلا الله عند الموت.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: مَنْ هَذَا، قُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَالَهْ، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ:" إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا، فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ، وَشِمَالَهُ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا"، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ لِي: اجْلِسْ هَا هُنَا، قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي:" اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي، فَأَطَالَ اللُّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ وَهُوَ يَقُولُ:" وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى"، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ:" ذَلِكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، قَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ، وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ"، قَالَ النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، وَالْأَعْمَشُ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، بِهَذَا. قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ مُرْسَلٌ، لَا يَصِحُّ إِنَّمَا أَرَدْنَا لِلْمَعْرِفَةِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: مُرْسَلٌ أَيْضًا لَا يَصِحُّ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ، وَقَالَ: اضْرِبُوا عَلَى حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، هَذَا إِذَا مَاتَ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عِنْدَ الْمَوْتِ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک روز میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا، ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لیے میں چاند کے سائے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابوذر! یہاں آؤ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ (دنیا میں) زیادہ مال و دولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہو اور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو۔ (ابوذر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے چاہے چوری ہو، چاہے زنا ہو ابوذر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا: اے جبرائیل! خواہ اس نے چوری کی ہو، زنا کیا ہو؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔ نضر نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی (کہا) ہم سے حبیب بن ابی ثابت، اعمش اور عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ابوصالح نے جو اسی باب میں ابودرداء سے روایت کی ہے وہ منقطع ہے (ابوصالح نے ابودرداء سے نہیں سنا) اور صحیح نہیں ہے ہم نے یہ بیان کر دیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہو جائے اور صحیح ابوذر کی حدیث ہے (جو اوپر مذکور ہوئی) کسی نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا عطاء بن یسار نے بھی تو یہ حدیث ابودرداء سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی منقطع ہے اور صحیح نہیں ہے۔ آخر صحیح وہی ابوذر کی حدیث نکلی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ابودرداء کی حدیث کو چھوڑو (وہ سند لینے کے لائق نہیں ہے کیونکہ وہ منقطع ہے) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوذر کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت آدمی «لا إله إلا الله» کہے اور توحید پر خاتمہ ہو (تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا گو کتنا ہی گنہگار ہو)۔ بعض نسخوں میں یہ ہے «هذا اذا تاب وقال لا إله إلا الله عند الموت» یعنی ابوذر کی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ سے توبہ کرے اور مرتے وقت «لا إله إلا الله» کہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Dhar: Once I went out at night and found Allah's Apostle walking all alone accompanied by nobody, and I thought that perhaps he disliked that someone should accompany him. So I walked in the shade, away from the moonlight, but the Prophet looked behind and saw me and said, "Who is that?" I replied, "Abu Dhar, let Allah get me sacrificed for you!" He said, "O Abu Dhar, come here!" So I accompanied him for a while and then he said, "The rich are in fact the poor (little rewarded) on the Day of Resurrection except him whom Allah gives wealth which he gives (in charity) to his right, left, front and back, and does good deeds with it. I walked with him a little longer. Then he said to me, "Sit down here." So he made me sit in an open space surrounded by rocks, and said to me, "Sit here till I come back to you." He went towards Al-Harra till I could not see him, and he stayed away for a long period, and then I heard him saying, while he was coming, "Even if he had committed theft, and even if he had committed illegal sexual intercourse?" When he came, I could not remain patient and asked him, "O Allah's Prophet! Let Allah get me sacrificed for you! Whom were you speaking to by the side of Al-Harra? I did not hear anybody responding to your talk." He said, "It was Gabriel who appeared to me beside Al-Harra and said, 'Give the good news to your followers that whoever dies without having worshipped anything besides Allah, will enter Paradise.' I said, 'O Gabriel! Even if he had committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' I said, 'Even if he has committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' I said, 'Even if he has committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 450


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6443جندب بن عبد اللهالمكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ذلك جبريل عرض لي في جانب الحرة قال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة قلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم قال قلت وإ
   صحيح مسلم2305جندب بن عبد اللهالمكثرين هم المقلون يوم القيامة إلا من أعطاه الله خيرا فنفح فيه يمينه وشماله وبين يديه ووراءه وعمل فيه خيرا ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة فقال بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة فقلت يا جبريل وإن سرق وإن زنى قال نعم قال قلت وإن سرق وإن
   سنن أبي داود5226جندب بن عبد اللهيا أبا ذر فقلت لبيك وسعديك يا رسول الله وأنا فداؤك
   سنن ابن ماجه4130جندب بن عبد اللهالأكثرون هم الأسفلون يوم القيامة إلا من قال بالمال هكذا وهكذا وكسبه من طيب

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6443 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6443  
حدیث حاشیہ:
زید بن وہب کی سند کے بیان کرنے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کر دیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6443   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6443  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا تھا کہ آخرت کی دشوار گزار گھاٹیوں کو وہی لوگ عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے، اس لیے اکثر صحابہ فقر و فاقے کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔
(صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آدم کا بیٹا ناپسند کرتا ہے:
انسان موت کو ناپسند کرتا ہے، حالانکہ موت اہل ایمان کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے۔
(مسند أحمد: 427/5) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مال دار لوگ قیامت کے دن اسی قدر زیادہ نادار ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے مال آخرت بنانے کے بجائے اسے اپنی سج دھج اور ٹھاٹھ باٹھ میں خرچ کر دیا، اس لیے قیامت کے دن وہ درج ذیل آیت کا مصداق ہوں گے:
تم نے اپنی چیزیں دنیا کی زندگانی میں حاصل کر لیں اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا، اس لیے آج تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(الأحقاف: 20)
یہی وجہ ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے نافرمان دنیاوی اعتبار سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6443   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5226  
´آدمی کسی سے کہے اللہ مجھے آپ پر فدا کرے تو کیسا ہے؟`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پکارا: اے ابوذر! میں نے کہا: میں حاضر ہوں حکم فرمائیے اللہ کے رسول! میں آپ پر فدا ہوں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5226]
فوائد ومسائل:
یہ کلمہ میں تجھ پر واری قربان یا فدا معمولی کلمہ نہیں ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے وہیں استعمال ہونا چاہیے جہاں دنیا اور آخرت کی سعادت ہو۔
مثلا صالح ماں، باپ یا راسخ فی العلم ربانی علماء جو دین کے صحیح معنی میں معلم اور داعی ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5226   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4130  
´مالداروں کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ مال والے لوگ قیامت کے دن سب سے کمتر درجہ والے ہوں گے، مگر جو مال کو اس طرح اور اس طرح کرے اور اسے حلال طریقے سے کمائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4130]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
سخاوت سے اس شخص کو فائدہ ہوسکتا ہے جس کی کمائی حلال ہولہٰذا حرام کمائی سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4130   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2305  
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک رات نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چلے جا رہے ہیں آپﷺ کے ساتھ کوئی شخص نہیں ہے تو میں نے خیال کیا آپﷺ اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے، تو میں چاند کے سایہ میں چلنے لگا۔ آپﷺ نے مجھے مڑ کر دیکھ لیا۔ اور فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا ابو ذر ہوں، اللہ مجھے آپﷺ پر قربان کرے۔ آپﷺ نے فرمایا: (ابو ذر! آ جاؤ) تو میں آپﷺ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مالداروں کو اپنا وافرمال ہر قسم کے نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے اگر وہ قیامت کے دن بلند مراتب پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔
مگر اگر وہ اپنا مال وجوہ خیر اور اسلام اور اہل اسلام کی بہتری اور مفادات کے حصول کے لیے کھلے دل سے ہر وقت اور ہر موقع پر اپنی قدرت کے مطابق خرچ نہیں کریں گے۔
تو وہ اعلیٰ درجات سے محروم رہیں گے۔
(2)
توحید کا اصل خاصہ اور خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اگر انسان اس کا صحیح حق ادا کرے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا لیکن اگر اس کے حقوق کی ادائیگی میں کمی اور کوتاہی کی تو اس خاصہ اور امتیاز کے ظہور میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور اس رکاوٹ کے ازالہ تک دوزخ میں رہنا پڑے گا اور آخر کار دوزخ سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
(3)
چوری اور زنا انتہائی قبیح جرائم ہیں جو دوسروں کے مال اور عزت و ناموس پر ڈاکہ زنی ہیں اس لیے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے تعجب کے انداز میں پوچھا:
چوری اور زنا کا مرتکب بھی جنت میں چلا جائے گا تو جبریل نے جواب دیا۔
ایسا انسان بھی جنت سے محروم نہیں رہے گا۔
بلکہ ان سے بڑھ کر جرم شراب نوشی کا مرتکب بھی موحد ہونے کی صورت میں جنت سے محروم نہیں رہے گا۔
حالانکہ شرابی ہر قسم کی شرم و حیا سے عاری ہوتا ہے اور اس سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2305   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.