(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله يحب العطاس ويكره التثاؤب، فإذا تثاءب احدكم فليرده ما استطاع، ولا يقل هاه هاه، فإنما ذلكم من الشيطان يضحك منه". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، وَلَا يَقُلْ هَاهْ هَاهْ، فَإِنَّمَا ذَلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے، تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے رہے، اور ہاہ ہاہ نہ کہے، اس لیے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، وہ اس پر ہنستا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 11 (3289)، الأدب 125 (6223)، 126 (6262)، سنن الترمذی/الصلاة 6 15 (370)، الأدب 7 (2747)، (تحفة الأشراف: 14322)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزہد والرقاق 9 (2995)، مسند احمد (2 /265، 428، 517) (صحیح)»
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Allah likes sneezing but dislikes yawning. So when one of you yawns, he should restrain it as much as possible, and should not say Ha, Ha, for that is from the devil who laughs at him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5010
الله يحب العطاس يكره التثاؤب إذا عطس أحدكم وحمد الله كان حقا على كل مسلم سمعه أن يقول له يرحمك الله التثاؤب فإنما هو من الشيطان فإذا تثاؤب أحدكم فليرده ما استطاع فإن أحدكم إذا تثاءب ضحك منه الشيطان
العطاس من الله التثاؤب من الشيطان فإذا تثاءب أحدكم فليضع يده على فيه وإذا قال آه آه فإن الشيطان يضحك من جوفه وإن الله يحب العطاس ويكره التثاؤب فإذا قال الرجل آه آه إذا تثاءب فإن الشيطان يضحك في جوفه
الله يحب العطاس يكره التثاؤب إذا عطس أحدكم فقال الحمد لله فحق على كل من سمعه أن يقول يرحمك الله التثاؤب فإذا تثاءب أحدكم فليرده ما استطاع ولا يقولن هاه هاه فإنما ذلك من الشيطان يضحك منه
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5028
فوائد ومسائل: 1۔ چھینک آنا طبعیت کے ہلکے ہونے اورصحت مندی کی جبکہ جمائی کسل او ر طبعیت کے بوجھل ہونے کی علامت ہوتی ہے۔ اور شریعت میں ہر بُری کیفیت کی نسبت شیطان کی طرف اور ہر خیر اور بہتری کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف کی جاتی ہے۔
2۔ جمائی کو بند کرنے کی ایک صورت یہ ہے۔ کہ انسان جمائی آنے ہی نہ دے۔ یا اگر آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے۔ اور ہاء ہاء کی آواز نہ نکالے۔ بالخصوص نماز کے دوران میں اس کا خاص خیال رکھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5028
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1173
1173- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کسی شخص کو جمائی آئے، تو وہ اسے روکنے کی کوشش کرے ورنہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1173]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب جمائی آئے تو اس کو روکنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے،کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1171
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1195
1195- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”چھینک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے جب کسی شخص کو جمائی آئے، تو وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے جب وہ ہا، ہاکہتا ہے، تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، جواس کے پیٹ میں ہنس رہا ہوتا ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1195]
فائدہ: اس حدیث میں چھینک کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا بیان ہے، کیونکہ چھینک بطور رحمت ہوتی ہے، جس سے انسان کی طبیعت کھل جاتی ہے۔ جمائی سستی اور غفلت کی علامت ہے، اور یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، نیز اس حدیث میں جمائی کے آداب کا بھی ذکر ہے کہ جمائی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھنا چاہیے، اور منہ پر ہاتھ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان جمائی لیتا ہے تو اس وقت اس کا منہ کھل جاتا ہے، اور اندر سے واضح نظر آ تا ہے، ایک تو ہاتھ رکھنے سے منہ کا اندرونی حصہ نظر نہیں آئے گا اور دوسرا جمائی کے وقت منہ سے جو آواز نکلتی ہے، اس پر کنٹرول ہو جاتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1193
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6226
6226. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی چھینک کو پسند اور جمائى کو ناپسند کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے۔ ہر مسلمان جو الحمدللہ سنے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یرحمك اللہ کہے۔ جماہی شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو اسے ممکن حد تک ممکن حد تک روکے کیونکہ جب کوئی جماہی لیتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6226]
حدیث حاشیہ: وہ تو بنی آدم کا دشمن ہے وہ آدمی کی سستی اور کاہلی دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6226
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6223
6223. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالٰی چھینک کو پسند اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے جب کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو ہر مسلمان پر جو اسے فرض ہے کہ اس کا جواب دے البتہ جماہی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو اسے روکے۔ جب کوئی جماہی کے وقت”ہا“ کی آواز نکالتا ہے تو اس سے شیطان ہنستا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6223]
حدیث حاشیہ: (1) چھینک آنا صحت مندی اور طبیعت کے ہلکے ہونے کی علامت ہے، نیز یہ چستی، ہوشیاری اور دماغ کی صفائی کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کو اس لیے پسند ہے کہ انسان چھینک آنے پر الحمدللہ کہتا ہے۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس چھینک کو پسند کرتا ہے جو زکام کی وجہ سے نہ ہو کیونکہ زکام والے شخص کی چھینک پر جواب دینا ضروری نہیں۔ شریعت کا قاعدہ ہے کہ ہر اچھی اور بہتر چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے اور ہر بری کیفیت شیطان کی طرف منسوب ہوتی ہے، اس لیے جماہی کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔ جماہی کو بند کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان جماہی آنے ہی نہ دے، اگر آئے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے بالخصوص نماز کے دوران میں اسے روکنے کا خاص اہتمام کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6223
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6226
6226. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی چھینک کو پسند اور جمائى کو ناپسند کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے۔ ہر مسلمان جو الحمدللہ سنے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یرحمك اللہ کہے۔ جماہی شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو اسے ممکن حد تک ممکن حد تک روکے کیونکہ جب کوئی جماہی لیتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6226]
حدیث حاشیہ: (1) جب انسان سیر ہو کر کھاتا ہے تو زیادہ کھانے کی وجہ سے معدے میں گرانی آ جاتی ہے، اس سے جماہی آتی ہے، اس سے بدن میں سستی پیدا ہوتی ہے۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ (2) بعض روایات میں نماز کا ذکر ہے کہ دوران نماز میں انگڑائی کو روکنا چاہیے کیونکہ نماز بندے کی بہترین حالت ہے، اس میں بندے کو خاص طور پر اسے روکنے کا اہتمام کرنا چاہیے بصورت دیگر ہر حال میں جماہی کو روکا جائے۔ (فتح الباري: 750/10)(3) ایک روایت میں ہے: ''جماہی لیتے وقت جانور کی طرح آواز نہ نکالے کیونکہ شیطان اس سے ہنستا ہے۔ '' (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 968) شیطان کے ہنسنے کی دو وجہیں ہیں: ٭ جماہی آنے سے چہرہ بگڑتا ہے اور انسان ھَاھَا کی آواز نکالتا ہے، شیطان اس صورت میں انسان کا مذاق اڑاتا ہے کہ کائنات کے چودھری کی شکل و صورت کیسی ہے اور یہ کس طرح حیوانات کی آواز نکال رہا ہے۔ ٭ وہ خوشی سے ہنستا ہے کیونکہ جماہی سستی اور کاہلی کی علامت ہے جو شیطان کو پسند ہے، اس لیے کہ کاہلی کی وجہ سے انسان بہت سی نیکیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6226