سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
1. باب فِي التِّجَارَةِ يُخَالِطُهَا الْحَلِفُ وَاللَّغْوُ
1. باب: تجارت میں قسم اور لایعنی باتوں کی ملاوٹ ہو جاتی ہے۔
Chapter: Regarding Trade That Is Mixed With Swearing And Idle Talk.
حدیث نمبر: 3326
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن قيس بن ابي غرزة، قال:" كنا في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم نسمى السماسرة، فمر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمانا باسم هو احسن منه، فقال: يا معشر التجار، إن البيع يحضره اللغو، والحلف، فشوبوه بالصدقة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ:" كُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ، وَالْحَلِفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ".
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ ۱؎ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو ۲؎۔

وضاحت:
۱؎ «سماسرہ»: «سمسار» کی جمع ہے، عجمی لفظ ہے چونکہ عرب میں اس وقت زیادہ تر عجمی لوگ خرید و فروخت کیا کرتے تھے، اس لئے ان کے لئے یہی لفظ رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کرتا ہے۔
۲؎: یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کر لیا کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 4 (1208)، سنن النسائی/الأیمان 21 (3828)، البیوع 7 (4468)، سنن ابن ماجہ/التجارات 3 (2145)، (تحفة الأشراف: 11103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/6،280) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Qays ibn Abu Gharazah: In the time of the Messenger of Allah ﷺ we used to be called brokers, but the Prophet ﷺ came upon us one day, and called us by a better name than that, saying: O company of merchants, unprofitable speech and swearing takes place in business dealings, so mix it with sadaqah (alms).
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3320


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (2798)
رواه الترمذي (1208 وسنده حسن)

   جامع الترمذي1208قيس بن أبي غرزةالشيطان والإثم يحضران البيع فشوبوا بيعكم بالصدقة
   سنن أبي داود3326قيس بن أبي غرزةالبيع يحضره اللغو والحلف فشوبوه بالصدقة
   سنن ابن ماجه2145قيس بن أبي غرزةالبيع يحضره الحلف واللغو فشوبوه بالصدقة
   المعجم الصغير للطبراني522قيس بن أبي غرزةتحضرون بيعكم بأيمان ولغو فشوبوها بشيء من صدقة
   سنن النسائى الصغرى3828قيس بن أبي غرزةالبيع يحضره الحلف والكذب فشوبوا بيعكم بالصدقة
   سنن النسائى الصغرى3829قيس بن أبي غرزةالبيع يحضره الحلف والكذب فشوبوه بالصدقة
   سنن النسائى الصغرى3830قيس بن أبي غرزةالسوق يخالطها اللغو والكذب فشوبوها بالصدقة
   سنن النسائى الصغرى3831قيس بن أبي غرزةيشهد بيعكم الحلف والكذب فشوبوه بالصدقة
   سنن النسائى الصغرى4468قيس بن أبي غرزةيشهد بيعكم الحلف واللغو فشوبوه بالصدقة
   مسندالحميدي442قيس بن أبي غرزةيا معشر التجار

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3326 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3326  
فوائد ومسائل:
یعنی مال صدقہ کرتے رہنا مذکورہ غلط باتوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
جیسے اللہ کا فرمان ہے۔
(إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ) (ھود:114) نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔
خرید وفروخت کے دوران میں دونوں فریقوں کو اپنی اپنی جگہ آذادی سے جانچ پڑتال اور غور وخوض کرکے فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن عموما دوکاندار جو کاروباری معاملات میں زیادہ تجربہ کارہوتے ہیں۔
جھوٹ۔
ملمع سازی۔
اور چکنی چپڑی باتوں کے ذریعےسے خریدارکے آذاد فیصلے پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔
قسم بھی خواہ سچی ہو یا جھوٹی دوسرے فریق کے فیصلے میں جھکائو پیدا کرتی ہے۔
چیز کو بیچنے کےلئے یہ حربے کبھی اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ شریعت کی رو سے حرام قرار پاتے ہیں۔
اور کبھی یہ حربے، ہلکے پھلکےاور کم ضرر رساں ہوتےہیں۔
یہ بھی اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔
اس لئے تاجروں کوصدقے کا حکم دیا گیا ہے۔
تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور ہوسکے۔
آگے باب 6 حدیث3335 میں اسی بات کو نبی کریمﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔
قسم سودا زیادہ فروخت کرنے کا ذریعہ ہے، مگر اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔
(قسم برکت کو مٹا دیتی ہے)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3326   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3828  
´دل سے نہیں بلکہ زبان سے جھوٹی قسم کھانے والے کے حکم کا بیان۔`
قیس بن ابی غرزہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں «سماسر» (دلال) کہا جاتا تھا، ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور ہم خرید و فروخت کر رہے تھے تو آپ نے ہمیں ہمارے نام سے بہتر ایک نام دیا، آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں قسم اور جھوٹ ۱؎ بھی شامل ہو جاتی ہیں تو تم اپنی خرید و فروخت میں صدقہ ملا لیا کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3828]
اردو حاشہ:
(1) سماسرہ، سمسار کی جمع ہے۔ یہ عجمی لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی چیزیں اجرت لے کر بیچتے ہیں۔ عجمی لوگ تجارت کا کام زیادہ کرتے تھے‘ لہٰذا یہ لفظ سب تاجروں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ آپ نے اس لفظ کو پسند نہیں فرمایا اور اسے تجار سے بدل دیا۔
(2) اس حدیث کا یہ مقصود نہیں کہ تاجر لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر اور جھوٹ بول کر تجارت کرتے رہیں اور بعد میں کچھ صدقہ کردیا کریں۔ اللہ خیرسلا‘ بلکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مفہوم متعین فرمایا کہ یہاں قسم اور جھوٹ سے مراد بلا ارادہ قسم اور جھوٹ کے الفاظ صادر ہونا ہے‘ اس لیے صدقے کا حکم دیا ورنہ جھوٹی قسم کے ذریعے سے سامان بیچنا بہت بڑا گناہ ہے جو حقوق العباد کی ذیل میں آتا ہے۔ صدقہ بھی اسے نہیں مٹا سکتا لیکن عموماً صدقہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ صدقہ گناہوں کو مٹاتا ہے۔
(3) مخاطب کو اچھے نام سے پکارنا مستحب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3828   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3831  
´(خرید و فروخت کے وقت) غلط اور جھوٹی باتوں کا بیان۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینے میں وسق بیچتے اور خریدتے تھے، اور ہم اپنے کو «سماسرہ» (دلال) کہتے تھے، لوگ بھی ہمیں دلال کہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکل کر آئے تو آپ نے ہمیں ایک ایسا نام دیا جو اس نام سے بہتر تھا جو ہم اپنے لیے کہتے تھے یا لوگ ہمیں اس نام سے پکارتے تھے، آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! تمہاری خرید و فروخت میں (بلا قصد و ارادے کے) قسم اور جھوٹ کی باتیں بھی آ جاتی [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3831]
اردو حاشہ:
امام صاحب رحمہ اللہ نے اس باب سے اشارہ فرمایا کہ تجارت کے علاوہ بھی جس کام (مثلاً: کھیل وغیرہ) میں لغو‘ شوروغل‘ بلاوجہ قسموں وغیرہ کا امکان ہو تو وہاں بھی صدقہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح جس شخص سے بلا قصد قسم صادر ہوجاتی ہو یا اسے فالتو اور لایعنی گفتگو کی عادت ہو‘ اسے بھی صدقہ کرتے رہنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3831   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4468  
´خرید و فروخت کے وقت دل سے قسم نہ کھانے والے کو صدقہ کرنے کا حکم۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے میں (غلوں سے بھرے) وسق خریدتے اور بیچتے تھے، اور ہم اپنا نام «سمسار» (دلال) رکھتے تھے، لوگ بھی ہمیں اسی نام سے پکارتے تھے، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نکل کر آئے اور ہمارا ایسا نام رکھا جو ہمارے رکھے ہوئے نام سے بہتر تھا، اور فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! تمہاری خرید و فروخت میں قسم اور لغو باتیں آ جاتی ہیں، لہٰذا تم اس میں صدقہ کو ملا دیا کرو ۱؎ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4468]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے،حدیث:3828۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4468   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2145  
´تجارت میں احتیاط برتنے کا بیان۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں «سماسرہ» (دلال) کہے جاتے تھے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، تو آپ نے ہمارا ایک ایسا نام رکھا جو اس سے اچھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں قسمیں اور لغو باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو تم اس میں صدقہ ملا دیا کرو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2145]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (سماسرة)
کا واحد (سِمْسَارٌ)
ہے۔
محمد فواد عبد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس لفظ کی تشریح یوں کی ہے:
(هُوَ الْقَیِّمُ بِأَمْرِ الْبَيْعِ وَالُحَافظُ لَهُ) (حاشية سنن أبي داود، البيوع، باب في التجارة يخالطها الحلف واللغو)
خرید و فروخت کے معاملات کا نگران اور ان کا خیال رکھنے والا۔
یعنی کسی دوسرے کے تجارتی معاملات کا خیال رکھنے والا، منتظم۔
علامہ ابن کثیر  نے النهاية میں اس کی تعریف یوں کی ہے:
(هُوَ فِي الْبَيْعِ اسْمٌ لَّلَّذِي يَدْخُلُ بَيْنَ الْبَائِعِ وَالْمُشْتَرِي، مُتَوَسِّطاً لِاِمْضَاءِ الْبَيْعِ)
یعنی خریدو وفروخت کے معاملات میں یہ لفظ اس شخص کےلیے بولا جاتا ہے جو خريدار اور فروخت کار کے درمیان رابطہ قائم کرکے بیع کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا کرادار ادا کرتا ہے۔

(2)
اس حدیث سے دلال یا کمیشن ایجنٹ کے کام کا جواز ظاہر ہوتا ہے، جبکہ باب: 15(حدیث: 217ا5 تا 2177)
میں اس کی ممانعت مذکور ہے۔
ان حدیثوں کو اس طرح جمع کیا جا سکتا ہے کہ بغیر کمیشن کے خیر خواہی کے طور پر کسی چیز کی خریدو فروخت میں بھائی کی مدد کرنا افضل ہے اور اس کام کی اجرت یا کمیشن وصول کرنا مکروہ ہے۔
امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں ایک باب کا عنوان یوں لکھا ہے:
(بَابٌ هَلْ يَبِيْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِغَيْرِ أَجْرٍ؟ وَهَلْ يُعِيْنُهْ أَوْ يَنْصَحُهُ) (صحیح البخاري، البیوع، باب: 68)
کیا شہری آدمی دیہاتی کی طرف سے بغیر اجرت لیے فروخت کر سکتا ہے؟ کیا اس کی مدد اور خیر خواہی کرسکتا ہے؟ اور اس کے ساتھ نبئ اکرمﷺ کا یہ فرمان ذکر کیا ہے:
(إِذَا اسْتَنُصَحَ أحَدُکُمْ أخَاہُ فَلْیِنْصَحُ لَہُ)
جب کوئی شخص اپنے بھائی سے خیر خواہی کا مطالب ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی خیر خواہی کرے۔
اس عنوان کے تحت حضرت جریر کی حدیث ذکر کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے بعض دوسری چیزوں کے ساتھ ہر مسلمان کی خیر خواہی کی شرط پر بھی بیعت کی تھی۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منع کی حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ دلال نہ بنے، اس لیے امام بخاری نے اگلے باب کا یہ عنوان لکھا ہے:
(بَابٌ مَنْ كَرِهَ أنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبِادٍ بِأَجْرٍ)
 (صحیح البخاري، البیوع، باب: 69)
 شہری کا دیہاتی کے لیے اجرت لے کر فروخت کرنا مکروہ ہے۔
اس کے بعد كتاب الإجارة میں باب أجر المسمسرة (دلالی کی اجرت)
کے عنوان سے فرمایا:
ابن سیرین، عطاء، ابراہیم اور حسن رحمہم اللہ دلال کی اجرت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یوں کہنے میں کوئی حرج نہیں:
یہ کپڑا فروخت کرو، اتنی رقم سے جتنی رقم زیادہ ملے گی وہ تمہاری ہے۔
ابن سیرین  نے فرمایا:
یہ چیز اتنے کی بیچ دو، جو نفع ہوگا وہ تمہارا ہے، یا میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہوگا، اس میں کوئی حرج نہیں۔
نبیٔ اکرمﷺ نے فرمایا:
مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الإجارۃ، باب: 14)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2145   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1208  
´تاجروں کا ذکر اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ان کے نام رکھنے کا بیان۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) «سماسرہ» ۱؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے، لہٰذا تم اپنی خرید فروخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیا کرو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1208]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سماسرہ سمسارکی جمع ہے،
یہ عجمی لفظ ہے،
چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا،
نبی اکرمﷺنے ان کے لیے تجارکا لفظ پسند کیا جوعربی ہے،
سمساراصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اورمشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتا ہے۔

2؎:
یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کرلیا کرو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1208   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.