(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عمرو يعني ابن ابي عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس:" ان رجلا لزم غريما له بعشرة دنانير، فقال: والله لا افارقك حتى تقضيني، او تاتيني بحميل، فتحمل بها النبي صلى الله عليه وسلم، فاتاه بقدر ما وعده، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: من اين اصبت هذا الذهب؟، قال: من معدن، قال: لا حاجة لنا فيها، وليس فيها خير، فقضاها عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:" أَنَّ رَجُلًا لَزِمَ غَرِيمًا لَهُ بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أُفَارِقُكَ حَتَّى تَقْضِيَنِي، أَوْ تَأْتِيَنِي بِحَمِيلٍ، فَتَحَمَّلَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ بِقَدْرِ مَا وَعَدَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَيْنَ أَصَبْتَ هَذَا الذَّهَبَ؟، قَالَ: مِنْ مَعْدِنٍ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهَا، وَلَيْسَ فِيهَا خَيْرٌ، فَقَضَاهَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے قرض دار کے ساتھ لگا رہا جس کے ذمہ اس کے دس دینار تھے اس نے کہا: میں تجھ سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ تو قرض نہ ادا کر دے، یا ضامن نہ لے آ، یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض دار کی ضمانت لے لی، پھر وہ اپنے وعدے کے مطابق لے کر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”یہ سونا تجھے کہاں سے ملا؟“ اس نے کہا: میں نے کان سے نکالا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (لے جاؤ) اس میں بھلائی نہیں ہے“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے (قرض کو) خود ادا کر دیا۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: A man seized his debtor who owed ten dinars to him. He said to him: I swear by Allah, I shall not leave you until you pay off (my debt) to me or bring a surety. The Prophet ﷺ stood as a surety for him. He then brought as much (money) as he promised. The Prophet ﷺ asked: From where did you acquire this gold? He replied: From a mine. He said: We have no need of it; there is no good in it. Then the Messenger of Allah ﷺ paid (the debt) on his behalf.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3322
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه ابن ماجه (2406 وسنده حسن)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3328
فوائد ومسائل: 1۔ معادن (کانوں) سے اسلامی حکومت کی اجازت سے شرعی شرائط کے مطابق مال نکالنا جائز ہے۔
2۔ اس شخص کو جو سونا کان سے ملا تھا۔ اس کا طریق حصول غیر واضح تھا۔ اس لئے یقینی طور پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کہ وہ اس کا جائز مالک ہے یا نہیں اس لئے آپ نے اس کو قبول نہیں فرمایا۔
3۔ مقروض جب قرض ادا نہ کررہا ہو تو چمٹ کر مطالبہ کرنا مباح ہے۔
4۔ مسلمان مقروض کی مدد کرنا اس کا کفیل یا ضامن بن جانا بہت بڑا احسان اور نیکی کا کام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3328
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2406
´ضمانت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص ایک قرض دار کے پیچھے لگا رہا جس پر اس کا دس دینار قرض تھا، وہ کہہ رہا تھا: میرے پاس کچھ نہیں جو میں تجھے دوں، اور قرض خواہ کہہ رہا تھا: جب تک تم میرا قرض نہیں ادا کرو گے یا کوئی ضامن نہیں لاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا، چنانچہ وہ اسے کھینچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ سے پوچھا: ”تم اس کو کتنی مہلت دے سکتے ہو“؟ اس نے کہا: ایک مہینہ کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں اس کا ضامن ہوتا ہوں“، پھر قرض دار نبی اکرم ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2406]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قرض خواہ مقروض پرقرض کی ادائیگی کےلیے زور دے سکتا ہے۔
(2) آپس میں جھگڑے سے بہترہے کہ حاکم کے سامنے معاملہ پیش کر دیا جائے۔
(3) اگرایسی صورت ممکن ہو جس میں فریقین کے لیے سہولت ہو اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو تو حاکم کو چاہیے کہ وہ صورت اختیار کرنے کا مشورہ دے۔
(4) مقروض کومہلت دینا اس سے ہمدردی اور کارثواب ہے۔
(5) ضمانت طلب کرنا اورضمانت دینا شرعاً جائز ہے۔
(6) کان سے ملنے والی چیز حلال ہے لیکن بہتر تھا کہ وہ محنت کر کے کماتا اوراس سے قرض ادا کرتا۔
(7) ضامن کی طرف سےادائیگی مقروض کی طرف سے ادائیگی شمار ہو گی اورمقروض برئ الذمہ ہو جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2406