(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، ووهب بن بيان، المعنى قالا: حدثنا ابن وهب، حدثني معاوية، عن ربيعة بن يزيد، انه حدثه عن قزعة، قال: اتيت ابا سعيد الخدري وهو يفتي الناس وهم مكبون عليه، فانتظرت خلوته. فلما خلا سالته عن صيام رمضان في السفر. فقال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في رمضان عام الفتح. فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم ونصوم حتى بلغ منزلا من المنازل، فقال:" إنكم قد دنوتم من عدوكم والفطر اقوى لكم". فاصبحنا منا الصائم ومنا المفطر. قال: ثم سرنا فنزلنا منزلا، فقال:" إنكم تصبحون عدوكم والفطر اقوى لكم، فافطروا". فكانت عزيمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو سعيد: ثم لقد رايتني اصوم مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل ذلك وبعد ذلك. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ قَزَعَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَهُوَ يُفْتِي النَّاسَ وَهُمْ مُكِبُّونَ عَلَيْهِ، فَانْتَظَرْتُ خَلْوَتَهُ. فَلَمَّا خَلَا سَأَلْتُهُ عَنْ صِيَامِ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ. فَقَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ عَامَ الْفَتْحِ. فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ وَنَصُومُ حَتَّى بَلَغَ مَنْزِلًا مِنَ الْمَنَازِلِ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ". فَأَصْبَحْنَا مِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ. قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تُصَبِّحُونَ عَدُوَّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ، فَأَفْطِرُوا". فَكَانَتْ عَزِيمَةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: ثُمَّ لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَصُومُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ وَبَعْدَ ذَلِكَ.
قزعہ کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ لوگوں کو فتوی دے رہے تھے، اور لوگ ان پر جھکے جا رہے تھے تو میں تنہائی میں ملاقات کی غرض سے انتظار کرتا رہا، جب وہ اکیلے رہ گئے تو میں نے سفر میں رمضان کے مہینے کے روزے کا حکم دریافت کیا، انہوں نے کہا: ہم فتح مکہ کے سال رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر پر نکلے، سفر میں اللہ کے رسول بھی روزے رکھتے تھے اور ہم بھی، یہاں تک کہ جب منزلیں طے کرتے ہوئے ایک پڑاؤ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب تم دشمن کے بالکل قریب آ گئے ہو، روزہ چھوڑ دینا تمہیں زیادہ توانائی بخشے گا“، چنانچہ دوسرے دن ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا، پھر ہمارا سفر جاری رہا پھر ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح تم دشمن کے پاس ہو گے اور روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ قوت بخش ہے، لہٰذا روزہ چھوڑ دو“، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تاکید تھی۔ ابوسعید کہتے ہیں: پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سے پہلے بھی روزے رکھے اور اس کے بعد بھی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 16 (1120)، (تحفة الأشراف: 4283)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الصیام 31 (2311)، مسند احمد (3/35) (صحیح)»
Narrated Qazaah: I came to Abu Saeed al-Khudri while he was giving his legal opinion to the people who bent down on him. So I waited to see hi when he was alone. When he became alone, I asked him about keeping fast while travelling. He said: we went out along with the Prophet ﷺ in Ramadan in the year of conquest of Makkah. The Messenger of Allah ﷺ fasted and we fasted until he reached a certain stage. He said: You have come near your enemy; the breaking of fast will bring you more strength. Then morning came when some of us fasted and other broke their fast. He (Abu Saeed al-Khudri) said: We then proceeded and alighted at a stage. He said: You are going to attack your enemy tomorrow morning ; breaking the fast will bring you more strength ; so break your fast (i. e. do not keep fast). This resolution (of breaking the fast) took place (due to the announcement) from the Messenger of Allah ﷺ. Abu Saeed said: Then I found myself keeping fast along with the Prophet ﷺ before and after that.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2400
إنكم قد دنوتم من عدوكم والفطر أقوى لكم فأصبحنا منا الصائم ومنا المفطر قال ثم سرنا فنزلنا منزلا فقال إنكم تصبحون عدوكم والفطر أقوى لكم فأفطروا فكانت عزيمة من رسول الله
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2406
فوائد ومسائل: (1) سفر میں روزے رکھنا یا نہ رکھنا ہر شخص کے احوال اور اس کی اپنی ترجیح پر مبنی ہے۔
(2) صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے کہ کون سا ارشاد ترغیب محض ہے اور کون سا عزیمت۔ امر عزیمت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کسی بھی طرح روا نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ استنباط و اجتہاد علمائے راسخین کا کام ہے۔ فتاویٰ کے لیے انہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو فہم قرآن و سنت کا کامل ملکہ رکھتے ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2406
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1684
´لڑائی کے وقت روزہ نہ رکھنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرالظہران ۱؎ پہنچے اور ہم کو دشمن سے مقابلہ کی خبر دی تو آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا، لہٰذا ہم سب لوگوں نے روزہ توڑ دیا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1684]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی کانام ہے۔
2؎: اگر مجاہدین ایسے مقام تک پہنچ چکے ہیں جس سے آگے دشمن سے ملاقات کا ڈرہے تو ایسی صورت میں صوم توڑدینا بہتر ہے، اور اگریہ امریقینی ہے کہ دشمن آگے مقابلہ کے لیے موجود ہے تو صوم توڑدینا ضروری ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1684