(مرفوع) حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا ابو هلال الراسبي، حدثنا ابن سوادة القشيري، عن انس بن مالك، رجل من بني عبد الله بن كعب إخوة بني قشير، قال: اغارت علينا خيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم فانتهيت، او قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ياكل. فقال: اجلس فاصب من طعامنا هذا. فقلت: إني صائم. قال: اجلس احدثك عن الصلاة وعن الصيام" إن الله تعالى وضع شطر الصلاة او نصف الصلاة والصوم عن المسافر وعن المرضع او الحبلى والله لقد قالهما جميعا او احدهما". قال: فتلهفت نفسي ان لا اكون اكلت من طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ إِخْوَةِ بَنِي قُشَيْرٍ، قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَهَيْتُ، أَوْ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَأْكُلُ. فَقَالَ: اجْلِسْ فَأَصِبْ مِنْ طَعَامِنَا هَذَا. فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ. قَالَ: اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّلَاةِ وَعَنِ الصِّيَامِ" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى وَضَعَ شَطْرَ الصَّلَاةِ أَوْ نِصْفَ الصَّلَاةِ وَالصَّوْمَ عَنِ الْمُسَافِرِ وَعَنِ الْمُرْضِعِ أَوِ الْحُبْلَى وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا جَمِيعًا أَوْ أَحَدَهُمَا". قَالَ: فَتَلَهَّفَتْ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ أَكَلْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک ۱؎ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (جو بنی قشیر کے برادران بنی عبداللہ بن کعب کے ایک فرد ہیں) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑ سوار دستے نے ہم پر حملہ کیا، میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، یا یوں کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا، آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھو، اور ہمارے کھانے میں سے کچھ کھاؤ“، میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا بیٹھو، میں تمہیں نماز اور روزے کے بارے میں بتاتا ہوں: اللہ نے (سفر میں) نماز آدھی کر دی ہے، اور مسافر، دودھ پلانے والی، اور حاملہ عورت کو روزہ رکھنے کی رخصت دی ہے“، قسم اللہ کی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کا ذکر کیا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں سے نہ کھا پانے کا افسوس رہا۔
وضاحت: ۱؎: یہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص کے علاوہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصوم 21 (715)، سنن النسائی/الصیام 28 (2276)، سنن ابن ماجہ/الصیام 12 (1667)، (تحفة الأشراف: 1732)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/347، 5/29) (حسن صحیح)»
Narrated Anas ibn Malik: A man from Banu Abdullah ibn Kab brethren of Banu Qushayr (not Anas ibn Malik, the well-known Companion), said: A contingent from the cavalry of the Messenger of Allah ﷺ raided us. I reached (for he said went) to the Messenger of Allah ﷺ who was taking his meals. He said: Sit down, and take some from this meal of ours. I said: I am fasting, he said: Sit down, I shall tell you about prayer and fasting. Allah has remitted half the prayer to a traveller, and fasting to the traveller, the woman who is suckling an infant and the woman who is pregnant, I swear by Allah, he mentioned both (i. e. suckling and pregnant women) or one of them. I was grieved for not taking the food of the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2402
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (2025) رواه النسائي (2317 وسنده حسن)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2408
فوائد ومسائل: مسافر، بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لیے رعایت ایک ہی سیاق میں ذکر ہوئی ہے، مگر تفصیل میں فرق ہے کہ مسافر کو روزہ معاف ہے، مگر قضا کرنا واجب ہے۔ اور مُرضِعَہ (دودھ پلانے والی) اور حاملہ کی بابت علماء کی چار آراء ہیں، جس کی مختصر تفصیل حدیث نمبر: 2318 کے فوائد میں گزری ہے۔ تاہم ان عورتوں کو ایام اقامت میں پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے۔ شرعی عذر (حیض و نفاس) میں نماز بالکل معاف ہے اور اس کی کوئی قضا نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2408
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2276
´اس حدیث میں معاویہ بن سلام اور علی بن المبارک کے یحییٰ بن ابی کثیر پر اختلاف کا ذکر۔` انس (قشیری) رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز اور روزے کی چھوٹ دی ہے اور، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی“(روزے کی چھوٹ دی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2276]
اردو حاشہ: (1) امام نسائی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث انس کو بھی مذکورہ باب کے تحت ہی ذکر فرما دیا، حالانکہ اس پر الگ سے عنوان قائم کرنا زیادہ مناسب تھا جیسا کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث کے اسنادی اختلافات کے بیان میں کرتے ہیں۔ دیکھئے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: 21/ 172، 173) (2) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر بچے کے نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے، بعد میں قضا ادا کرے یا بعض نے کہا ہے کہ فدیہ دے دے، یہی کافی ہے۔ بعض کہتے ہیں قضا کی ضرورت ہے نہ فدیہ کی، گویا کہ حقیقتاً معافی ہے، مگر جمہور اہل علم کے نزدیک پہلی بات ہی صحیح ہے کہ بعد میں قضا ادا کرنی ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2276
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2278
´اس حدیث میں معاویہ بن سلام اور علی بن المبارک کے یحییٰ بن ابی کثیر پر اختلاف کا ذکر۔` ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوقلابہ نے یہ حدیث بیان کی، پھر مجھ سے کہا: کیا آپ اس حدیث کے بیان کرنے والے سے ملنا چاہیں گے؟ پھر انہوں نے ان کی طرف میری رہنمائی کی، تو میں جا کر ان سے ملا، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے ایک رشتہ دار نے جنہیں انس بن مالک کہا جاتا ہے نے بیان کیا کہ میں اپنے اونٹوں کے سلسلے میں جو پکڑ لیے گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں پہنچا تو آپ کھانا کھا رہے تھے، تو آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2278]
اردو حاشہ: (1) یہ انس بن مالک قشیری ہیں۔ مشہور انس بن مالک خادم رسول اور ہیں… رضي اللہ عنه … (2)”پکڑ لیے گئے تھے۔“ رسول اللہﷺ کے لشکر نے یہ اونٹ پکڑے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کفار کے ہیں‘ حالانکہ یہ اونٹ صحابی رسول حضرت انس بن مالک قشیری رضی اللہ عنہ کے تھے۔ تو حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں کے مطالبے کے لیے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2278
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2317
´حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ کا بیان۔` انس بن مالک (قشیری) رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”آؤ کھانا کھاؤ۔“ انہوں نے عرض کیا: میں روزہ دار ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے مسافر کو روزہ کی، اور آدھی نماز کی چھوٹ دے دی ہے، نیز حاملہ اور مرضعہ کو بھی روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ دی گئی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2317]
اردو حاشہ: حاملہ اور مرضعہ کو اگر مشقت محسوس ہو یا اپنے بچے کا خطرہ ہو تو انہیں روزہ چھوڑنے اور اس کی جگہ کفارہ دینے کی رخصت ہے۔ اگرچہ اس مسئلے میں اختلاف ہے لیکن یہ موقف راجح ہے۔ ابن عباس اور ابن عمر دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی فتویٰ ہے اور سند بھی صحیح ہے۔ دیکھئے (سنن الدارقطني: 2/ 207، مع التعلیق المغني، مزید دیکھیے: سبل السلام مع تعلیق الألباني: 2/ 453) روایت کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے دیکھئے احادیث: 2269، 2276۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2317
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1667
´حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزہ نہ رکھنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عبدالاشہل کے اور علی بن محمد کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب آ جاؤ اور کھاؤ“ میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں“ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1667]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جس وقت یہ واقعہ پیش آیا۔ اس وقت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوچکے تھے۔ جب كہ ان کا قبیلہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
(2) مسافر کو آدھی نماز معاف ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جن نمازوں میں چار رکعت فرض ہیں۔ ان میں دو رکعت فرض نماز ادا کی جائے۔ فجر اور مغرب کی نماز سفر میں بھی پوری پڑھی جاتی ہے۔
(3) روزے دار کو کھانے کی دعوت دی جائے۔ تو وہ اپنے روزے کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ ریا میں شامل نہیں۔
(4) مسافر بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے رعایت ایک ہی سیاق میں بیان ہوئی ہے۔ مگر تفصیل میں فرق ہے کہ مسافر کوروزہ معاف ہے۔ مگر قضا ادا کرنا واجب ہے۔ اور مرضعہ اور حاملہ کی بابت علماء کی چار آراء ہیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کےلئے فدیہ ہی کافی ہے۔ بعد میں قضا نہیں دوسری رائے یہ ہے کہ ان پر نہ قضا ہے نہ فدیہ یہ رائے حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ جو انھوں نے المحلی (مسئلہ نمبر 770) میں بیان کی ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں چوتھی رائے یہ ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں۔ وہ روزہ چھوڑدیں انھیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں۔ اور بعد میں قضا دیں مولانا محمد علی جانباز رحمۃ اللہ علیہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ دیکھئے: (إنجاز الحاجة، شرح ابن ماجة: 566/5) نیز سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ دیکھئے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 2/203، مطبوعہ دارالسلام)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1667
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 715
´حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت۔` انس بن مالک کعبی رضی الله عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں نے ہم پر رات میں حملہ کیا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ کو پایا کہ آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”آؤ کھا لو“، میں نے عرض کیا: ”میں روزے سے ہوں۔“ آپ نے فرمایا: ”قریب آؤ، میں تمہیں روزے کے بارے میں بتاؤں، اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ۲؎ معاف کر دی ہے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی روزہ کو معاف کر دیا ہے۔ اللہ کی قسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اور دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 715]
اردو حاشہ: 1؎: یہ وہ انس بن مالک نہیں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے خادم ہیں، بلکہ یہ کعبی ہیں۔
2؎: مراد چار رکعت والی نماز میں سے ہے۔
3؎: اور اسی کو صاحب تحفہ الأحوذی نے راجح قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لہذا ان پر صرف قضا لازم ہو گی۔ واللہ اعلم۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 715