(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ذرعه قيء وهو صائم فليس عليه قضاء، وإن استقاء فليقض"، قال ابو داود: رواه ايضا حفص بن غياث، عن هشام، مثله. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ ذَرَعَهُ قَيْءٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَإِنِ اسْتَقَاءَ فَلْيَقْضِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَيْضًا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامٍ، مِثْلَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو قے ہو جائے اور وہ روزے سے ہو تو اس پر قضاء نہیں، ہاں اگر اس نے قصداً قے کی تو قضاء کرے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حفص بن غیاث نے بھی ہشام سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: if one has a sudden attack of vomiting while one is fasting, no atonement is required of him, but if he vomits intentionally he must make atonement.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2374
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (720) ابن ماجه (1676) ھشام بن حسان عنعن وأخرج البيهقي (219/4) بأسانيد صحيحة عن ابن عمر قال:”من ذرعه القئ فلا قضاء عليه ومن استقاء فعليه القضاء“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 88
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 545
´(روزے کے متعلق احادیث)` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے قے آ جائے تو اس پر (روزہ کی) قضاء نہیں اور جو جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضاء ہے۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور امام احمد نے اس کو معلول کہا ہے اور امام دارقطنی نے اسے قوی کہا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 545]
لغوی تشریح 545: ذَرعَہُ القَیئُ قے غالب آ جائے، یعنی جو زور سے، بغیر ارادہ اور قصد کے قے آئے۔ أِستَقَاءَ جو قصدًا اور ارادتًا خود قے کرے۔
فوائد و مسائل 545: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندًا ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں لکھا ہے کہ یہ روایت حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مصنف ابنِ ابی شیبہ (38/3، حدیث: 9188) میں صحیح سند سے مروی ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سندًا ضعیف اور معنًا صحیح ہے۔ دیکھیے: (سنن ابوداؤد (اردو) طبع دارالسلام، حدیث: 2380 کی تحقیق و تخریج) مزید سندی اور تحقیقی بحث کے لیے دیکھیے: [الموسوعه الحديثية مسند الأمام أحمد: 284۔ 16، والأرواء، رقم: 923] ➋ اگر روزے دار کو ازخود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں اور اگر جان بوجھ کر قے کرے تو اس پر قضا ہے۔ امام شافعی، امام سفیان ثوری، امام احمد اور امام اسحٰق رحمہم اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین بھی اسی کے قائل ہیں۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، بعد حديث: 716]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 545
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1676
´روزہ دار قے کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے خود بہ خود قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر روزے کی قضاء ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1676]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابو داؤد کی تحقیق میں لکھا ہے۔ کہ یہ مسئلہ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن ابی شیبہ (38/3 حدیث: 9188) میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ لہٰذا یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اور معناً صحیح ہے۔ دیکھئے: سنن ابوداؤد، حدیث: 2380 کی تحقیق وتخریج تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 284/16، والإرواء، رقم: 923)
(2) اس باب کی دونوں روایتوں میں باہم تعارض محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر پہلی حدیث کو نفلی روزے پر محمول کرلیا جائے تو تعارض رفع ہوجاتا ہے۔
(3) روزے کے دوران میں قے کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر کسی وجہ سے قے کرنی پڑے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ روزہ فرضی ہو یا نفلی تاہم فرضی روزے کی قضا دینا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1676
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 720
´جان بوجھ کر قے کر دینے والے کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں ۱؎ اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 720]
اردو حاشہ: 1؎: کیونکہ اس میں روزے دار کی کوئی غلطی نہیں۔
2؎: اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ اس میں کفارہ نہیں صرف قضاء ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 720