سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابي داود تفصیلات

سنن ابي داود
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
Divorce (Kitab Al-Talaq)
35. باب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ
35. باب: بچے کی پرورش کا زیادہ حقدار کون ہے؟
Chapter: Who Has More Right To Take The Child?
حدیث نمبر: 2277
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا عبد الرزاق، وابو عاصم، عن ابن جريج، اخبرني زياد، عن هلال بن اسامة، ان ابا ميمونة سلمى مولى من اهل المدينة رجل صدق، قال: بينما انا جالس مع ابي هريرة جاءته امراة فارسية معها ابن لها فادعياه وقد طلقها زوجها، فقالت: يا ابا هريرة، ورطنت له بالفارسية، زوجي يريد ان يذهب بابني، فقال ابو هريرة: استهما عليه، ورطن لها بذلك، فجاء زوجها، فقال: من يحاقني في ولدي؟ فقال ابو هريرة: اللهم إني لا اقول هذا إلا اني سمعت امراة جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا قاعد عنده، فقالت: يا رسول الله، إن زوجي يريد ان يذهب بابني وقد سقاني من بئر ابي عنبة وقد نفعني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استهما عليه"، فقال زوجها: من يحاقني في ولدي؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هذا ابوك وهذه امك، فخذ بيد ايهما شئت"، فاخذ بيد امه فانطلقت به.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، أَنَّ أَبَا مَيْمُونَةَ سَلْمَى مَوْلًى مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ رَجُلَ صِدْقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَارِسِيَّةٌ مَعَهَا ابْنٌ لَهَا فَادَّعَيَاهُ وَقَدْ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا، فَقَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَرَطَنَتْ لَهُ بِالْفَارِسِيَّةِ، زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اسْتَهِمَا عَلَيْهِ، وَرَطَنَ لَهَا بِذَلِكَ، فَجَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لَا أَقُولُ هَذَا إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي وَقَدْ سَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ وَقَدْ نَفَعَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَهِمَا عَلَيْهِ"، فَقَالَ زَوْجُهَا: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ"، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ.
ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہ ابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی: ابوہریرہ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر آیا اور کہنے لگا: میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا اللہ! میں نے تو یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو کہتے سنا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، وہ کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرا شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے، حالانکہ وہ ابوعنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لا کر پلاتا ہے اور وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، اس کا شوہر بولا: میرے لڑکے کے متعلق مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرا باپ ہے، اور یہ تیری ماں ہے، ان میں سے تو جس کا بھی چاہے ہاتھ تھام لے، چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، اور وہ اسے لے کر چلی گئی ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: امام شافعی کی یہی دلیل ہے، ان کے نزدیک لڑکے کو اختیار ہو گا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرلے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک کم سن ہے ماں کے ساتھ رہے گا، اور جب خود کھانے، پینے، پہنے اور استنجا کرنے لگے تو باپ کے ساتھ ہو جائے گا، یہ قول زیادہ قوی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأحکام 21 (1357)، سنن النسائی/الطلاق 52 (3526)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 22 (2351)، (تحفة الأشراف: 15463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/447)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2339) (صحیح)» ‏‏‏‏

Hilal ibn Usamah quoted Abu Maimunah Salma, client of the people of Madina, as saying: While I was sitting with Abu Hurairah, a Persian woman came to him along with a son of hers. She had been divorced by her husband and they both claimed him. She said: Abu Hurairah, speaking to him in Persian, my husband wishes to take my son away. Abu Hurairah said: Cast lots for him, saying it to her in a foreign language. Then her husband came and asked: Who is disputing with me about my son? Abu Hurairah said: O Allah, I do not say this, except that I heard a woman who came to the Messenger of Allah ﷺ while I was sitting with him, and she said: My husband wishes to take away my son, Messenger of Allah, and he draws water for me from the well of Abu Inabah, and he has been good to me. The Messenger of Allah ﷺ said: Cast lots for him. Her husband said: Who is disputing with me about my son? The Prophet ﷺ said: This is your father and this your mother, so take whichever of them you wish by the hand. So he took his mother's hand and she went away with him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2270


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (3380، 3381)

   سنن النسائى الصغرى3526عبد الرحمن بن صخرهذا أبوك وهذه أمك فخذ بيد أيهما شئت فأخذ بيد أمه فانطلقت به
   سنن أبي داود2277عبد الرحمن بن صخرهذا أبوك وهذه أمك فخذ بيد أيهما شئت فأخذ بيد أمه فانطلقت به
   سنن ابن ماجه2351عبد الرحمن بن صخرهذه أمك وهذا أبوك
   بلوغ المرام988عبد الرحمن بن صخر يا غلام هذا أبوك وهذه أمك فخذ بيد أيهما شئت
   مسندالحميدي1114عبد الرحمن بن صخريا غلام هذا أبوك، وهذه أمك فاختر أيهما شئت

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2277 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2277  
فوائد ومسائل:
بچہ بچی جب خوب سمجھدارہوں تو مذکورہ بالا احوال میں انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2277   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 988  
´پرورش و تربیت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرا شوہر مجھ سے میرا بچہ چھیننا چاہتا ہے اور یہ بچہ میرے کام کاج میں مددگار ہے اور میرے لئے ابوعنبہ کے کنوئیں سے پانی لا کر دیتا ہے۔ اسی اثنا میں اس کا شوہر بھی آ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لڑکے! یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری والدہ ان دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے۔ اس بچہ نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے کر چلتی بنی۔ اسے احمد اور چاروں نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 988»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب من أحق بالولد، حديث:2277، والترمذي، الأحكام، حديث:1357، والنسائي، الطلاق، حديث:3526، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2351، وأحمد:2 /246.»
تشریح:
اس حدیث میں بچے کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کے پاس رہنا پسند کرے اس کے پاس رہے اور اس سے پہلی حدیث میں والدہ کو زیادہ حق دیا گیا ہے۔
تو اس کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جس امر میں بچے کی مصلحت اور خیر خواہی ہو اسے اختیار کرنا چاہیے۔
اگر ماں‘ باپ کے مقابلے میں زیادہ صحیح تربیت و پرورش اور حفاظت کرنے والی ہو اور نہایت غیرت مند خاتون ہو تو ماں کو باپ پر مقدم کیا جائے گا۔
اس موقع پر قرعہ اندازی یا اختیار میں سے کسی کا لحاظ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بچہ تو نادان‘ کم عقل‘ ناعاقبت اندیش ہوتا ہے۔
ماں باپ میں سے جو بچے کا زیادہ خیال رکھنے والا ہو‘ بچہ اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔
اگر باپ میں یہ اوصاف ماں کی نسبت زیادہ ہوں تو بچہ باپ کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔
وہی اس کی پرورش و تربیت کا ذمہ دار ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں ماں کے پاس رہیں گے۔
اور احناف نے کہا کہ لڑکی ماں کے پاس اور لڑکا باپ کے پاس رہے گا۔
قرین انصاف بات امام ابن قیم رحمہ اللہ کی معلوم ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 988   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3526  
´میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کر لے تو نابالغ بیٹے کو کسی ایک کے ساتھ ہو جانے کا اختیار دیا جائے گا۔`
ابومیمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (و آرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں) اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا: کون میرے بیٹے کے معاملے میں م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3526]
اردو حاشہ:
(1) اگر خاوند بیوی دونوں مسلمان ہوں مگر ان میں جدائی ہوجائے تو اس صورت میں بچہ چھوٹا ہے تو وہ اپنی ماں کے پاس رہے گا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اس بیٹے کے لیے میرا پیٹ برتن تھا‘ میری چھاتی اس کا مشکیزہ تھی اور میری گود اس کی پنا ہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تو اس کی زیادہ حق دار ہے جب تک تو آگے نکاح نہیں کرتی۔ (سنن داود‘ الطلاق‘ حدیث:2276) اور اگر بچہ سن تمیز کو پہنچا ہوا ہے تو پھر اسے اختیار دیا جائے گا۔ وہ جسے اختیار کر لے گا اس کے پاس رہے گا جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ احادیث میں تطبیق کی یہ بہترین صورت ہے۔ تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے۔
(2) بئرأبی عنبہ مدینہ منورہ سے کافی باہر تقریباً 12 میل دور ایک کنواں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3526   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1114  
1114-ابومیمونہ بیان کرتے ہیں: ایک ایرانی شخص اور اس کی بیوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ دونوں اپنے بیٹے کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے۔ ایرانی نے کہا: اے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ ہمارا بیٹا ہے، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے: میں تم دونوں کے درمیان وہ فیصلہ دوں گا جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اے لڑکے! یہ تمہارے ابو ہیں اور یہ تمہاری امی ہے تم ان دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کرلو۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا ایک شخص اور اس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1114]
فائدہ:
اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے فقیہ، مجہتد، مفتی اور قاضی تھے کہ لوگ آپ کی طرف اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سنت سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، اور اپنے فیصلے قرآن و حدیث کے مطابق کرتے تھے۔
اس حدیث میں جو شرعی مسئلہ ذکر ہوا ہے وہ یہی ہے کہ جب میاں اور بیوی کا کسی بیٹی یا بیٹے کے متعلق اختلاف ہو جائے، اور دونوں ہی اس کو اپنے پاس رکھنے کا مطالبہ کریں تب بچے کو اختیار دیا جائے جس کی طرف وہ جانا چا ہے، اس کو جانے کا کلی اختیار ہوگا، اور اس کے اختیار کو حتمی قرار دیا جائے گا، اور قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1112   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.