بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”وتر حق ہے ۱؎ جو اسے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم سے نہیں“۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث ضعیف ہے، اگر صحیح ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وتر کا پڑھنا ثابت ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کی تخریج ابن المنذر نے ان الفاظ میں کی ہے «الوتر حق وليس بواجب» یعنی وتر ایک ثابت شدہ امر ہے لیکن واجب نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:1986)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/357) (ضعیف)» (اس کے راوی عبیداللہ العتکی ضعیف ہیں)
Narrated Buraydah ibn al-Hasib: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: The witr is a duty, so he who does not observe it does not belong to us; the witr is a duty, so he who does not observe it does not belong to us; the witr is a duty, so he who does not observe it does not belong to us.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1414
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف أبو المنيب حسن الحديث في غير ما أنكر عليه انظر تحفة الأقوياء في تحقيق كتاب الضعفاء للبخاري (215) وھذا الحديث مما أنكر عليه انظر ميزان الإعتدال (11/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 57
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 297
´نفل نماز کا بیان` سیدنا عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” وتر برحق ہے جس نے وتر نہ پڑھے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔“ ابوداؤد نے اسے کمزور سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے احمد کے نزدیک اس کا شاہد بھی ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مگر وہ ضعیف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 297»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن لم يوتر، حديث:1419، والحاكم:1 /305.* أبو المنيب حسن الحديث في غير ما أنكر عليه وهذا الحديث مما أنكر عليه، وحديث أبي هريرة أخرجه أحمد:2 /443، وسنده ضعيف جدًا، فيه خليل بن مرة وهو منكر الحديث كما قال البخاري.»
تشریح: ہمارے فاضل محقق اور حضرت شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے لیکن الموسوعۃ الحدیثیہ کے محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۵ / ۴۴۷‘ و ۳۸ / ۱۲۷‘ ۱۲۸) بہرحال مذکورہ حدیث قابل حجت اور حسن ہونے کے باوجود وتروں کے وجوب پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے وتروں کی اہمیت اور تاکید ہی ثابت ہوتی ہے‘ لہٰذا راجح موقف یہی ہے کہ اس حدیث کو تاکید پر محمول کر لیا جائے اور جمہور کے موقف کو اختیار کیا جائے کہ وتر سنت ہیں واجب نہیں جیسا کہ تفصیل حدیث: ۲۹۳ میں گزر چکی ہے۔
راویٔ حدیث: «عبداللہ بن بریدہ» ان کی کنیت ابوسہل ہے۔ مرو میں منصب قضاء پر فائز رہے۔ مشاہیر اور ثقہ تابعین میں شمار کیے گئے۔ تیسرے طبقہ کے مشاہیر میں سے تھے۔ ۱۱۵ ہجری میں مرو ہی میں فوت ہوئے۔ ان کے باپ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے حالات پیچھے گزر چکے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 297