تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الرجل يسمع السجده وهو راكب، حديث:1413.* عبدالله بن عمر العمري ضعيف لكنه حسن الحديث عن نافع.»
تشریح:
1. امام حاکم نے اس روایت کو عبیداللہ عمری کے حوالے سے نقل کیا ہے جسے انھوں نے ثقہ کہا ہے‘ اور اس حدیث کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین
(بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے۔
اور ابوداود کی روایت جسے متن میں بیان کیا گیا ہے عبداللہ اکبر کی ہے‘ وہ ضعیف راوی ہے۔
مستدرک حاکم کی روایت جسے امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے اس میں تکبیر کا ذکر نہیں ہے۔
غالباً اسی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کی بابت لکھا ہے کہ اس میں تکبیر کا ذکر منکر ہے۔
تکبیر کے بغیر مذکورہ روایت صحیح ہے جیسا کہ امام حاکم نے بھی تکبیر کے بغیر والی روایت ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔
2. سجدۂ تلاوت بھی سجدۂ نماز ہی کی طرح ہے‘ لہٰذا افضل یہ ہے کہ آدمی سیدھا کھڑا ہو کر پھر سجدے کے لیے جھکے اور سات اعضاء پر سجدہ کرے۔
اور اگر اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوئے بغیر‘ بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کر دے تو بھی جائز ہے۔
سجدے کو جاتے اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نماز میں ہر دفع نیچے جھکتے اور اوپر اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے تھے‘ جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بھی اللہ اکبر کہتے۔
(سنن النسائي‘ التطبیق‘ حدیث:۱۱۵۰‘ ۱۱۵۱) حضرت ابوہریرہ اور کئی دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔
چونکہ سجدۂ تلاوت بھی نماز کی طرح ہے اور دلائل سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ لہٰذا اس کے لیے بھی اللہ اکبر کہا جائے لیکن نماز سے باہر سجدہ کرنے کی صورت میں صرف سجدے کے آغاز میں اللہ اکبر کہنا مروی ہے اور یہی طریقہ معروف ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے۔
نماز کے علاوہ سجدے سے سراٹھاتے وقت اللہ اکبر اور بعد میں سلام پھیرنا مروی نہیں۔
3.بعض اہل علم کا موقف ہے کہ سجدے کو جاتے ہوئے اللہ اکبرکہے اور فارغ ہو کر سلام پھیرے۔
لیکن اس موقف کے حاملین کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے‘ اس لیے سجدہ کو جاتے ہوئے اللہ اکبر اور فراغت کے بعد سلام کہنا ضروری نہیں‘ ہاں اگر کوئی دیگر عمومات سے استدلال کرتے ہوئے صرف جواز کو اپناتا ہے اور تکبیر وغیرہ کہہ لیتا ہے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
سجدۂ تلاوت قاری اور سامع
(پڑھنے اور سننے والے) کے لیے سنت ہے۔
اگر قاری سجدہ کرے تو سامع کو بھی قاری کی اتباع میں سجدہ کرنا چاہیے۔
4.افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت باوضو اور قبلہ رو ہو کر کیا جائے۔
5.سجدۂ تلاوت کی معروف دعا
«سَجَدَ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ خَلَقَہُ وَ صَوَّرَہُ وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہُ‘ تَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ» (صحیح مسلم‘ صلاۃ المسافرین‘ حدیث:۷۷۱) کا سجدۂ نماز میں پڑھنا تو صحیح ثابت ہے مگر سجدۂ قرآن میں اس کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں۔
تاہم ایک دوسری دعا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے‘ وہ یہ ہے:
«اَللّٰھُمَّ اکْتُبْ لِي بِھَا عِنْدَکَ أَجْرًا‘ وَضَعْ عَنِّي بِھَا وِزْرًا وَاجْعَلْھَا لِي عِنْدَکَ ذُخْرًا‘ وَتَقَبَّلْھَا مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ» (جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ باب ماجاء مایقول في سجود القرآن‘ حدیث:۵۷۹‘ وسنن ابن ماجہ ‘ حدیث: ۱۰۵۳‘ وصحیح ابن خزیمۃ‘ حدیث:۵۶۲‘ ۵۶۳) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
(فتوحات ربانیہ: ۲ /۲۷۶) نیز امام ابن خزیمہ‘ حاکم‘ ابن حبان‘ شیخ احمد شاکر اور شیخ البانی رحمہم اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے‘ لہٰذا اس دعا کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا چاہیے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابوداود (اُردو) مطبوعہ دارالسلام) جلد دوم‘ حدیث:۱۴۱۴ کے فوائد۔