حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه،" ان عبدا لعبد الله بن عمر ابق، وان فرسا له عار، فاصابهما المشركون، ثم غنمهما المسلمون، فردا على عبد الله بن عمر وذلك قبل ان تصيبهما المقاسم" . حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ،" أَنَّ عَبْدًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَبَقَ، وَأَنَّ فَرَسًا لَهُ عَارَ، فَأَصَابَهُمَا الْمُشْرِكُونَ، ثُمَّ غَنِمَهُمَا الْمُسْلِمُونَ، فَرُدَّا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُصِيبَهُمَا الْمَقَاسِمُ" .
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا: ایک غلام سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بھاگ گیا تھا اور ایک گھوڑا تھا، تو پکڑ لیا ان دونوں کو کافروں نے، پھر غنیمت میں پایا ان دونوں کو مسلمانوں نے۔ پس پھیر دیا ان دونوں کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پر قبل تقسیم کے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع وموقوف صحيح، وأخرجه البخاري 3067، 3068، و أبو داود: 2698، 2699، و ابن ماجه: 2847،، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 17»
قال: وسمعت مالكا , يقول فيما يصيب العدو من اموال المسلمين: إنه إن ادرك قبل ان تقع فيه المقاسم فهو رد على اهله، واما ما وقعت فيه المقاسم، فلا يرد على احد. قَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا , يَقُولُ فِيمَا يُصِيبُ الْعَدُوُّ مِنْ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِينَ: إِنَّهُ إِنْ أُدْرِكَ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ فِيهِ الْمَقَاسِمُ فَهُوَ رَدٌّ عَلَى أَهْلِهِ، وَأَمَّا مَا وَقَعَتْ فِيهِ الْمَقَاسِمُ، فَلَا يُرَدُّ عَلَى أَحَدٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مسلمانوں کے مال اگر کفار کے پاس ملیں تو ان کے مالکوں کو پھیر دیئے جائیں گے جب تک تقسیم نہ ہو جائیں، اگر تقسیم ہو جائیں تو پھر نہ پھیریں گے۔
وسئل مالك، عن رجل حاز المشركون غلامه، ثم غنمه المسلمون، قال مالك: صاحبه اولى به بغير ثمن، ولا قيمة، ولا غرم ما لم تصبه المقاسم، فإن وقعت فيه المقاسم، فإني ارى ان يكون الغلام لسيده بالثمن إن شاء.وَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ حَازَ الْمُشْرِكُونَ غُلَامَهُ، ثُمَّ غَنِمَهُ الْمُسْلِمُونَ، قَالَ مَالِك: صَاحِبُهُ أَوْلَى بِهِ بِغَيْرِ ثَمَنٍ، وَلَا قِيمَةٍ، وَلَا غُرْمٍ مَا لَمْ تُصِبْهُ الْمَقَاسِمُ، فَإِنْ وَقَعَتْ فِيهِ الْمَقَاسِمُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ يَكُونَ الْغُلَامُ لِسَيِّدِهِ بِالثَّمَنِ إِنْ شَاءَ.
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ ایک مسلمان کے غلام کو کفار لے گئے، پھر مسلمانوں نے اس کو غنیمت میں پایا؟ تو جواب دیا کہ وہ غلام اس کے مالک کو دیا جائے گا بغیر قیمت کے جب تک تقسیم میں نہ آ جائے، اور جب تقسیم میں آ جائے تو اس کے مالک کو اختیار ہے کہ قیمت دے کر لے لے۔
قال مالك، في ام ولد رجل من المسلمين حازها المشركون، ثم غنمها المسلمون، فقسمت في المقاسم، ثم عرفها سيدها بعد القسم: إنها لا تسترق، وارى ان يفتديها الإمام لسيدها، فإن لم يفعل فعلى سيدها ان يفتديها، ولا يدعها، ولا ارى للذي صارت له ان يسترقها، ولا يستحل فرجها، وإنما هي بمنزلة الحرة لان سيدها يكلف ان يفتديها، إذا جرحت فهذا بمنزلة ذلك فليس له ان يسلم ام ولده، تسترق، ويستحل فرجها. قَالَ مَالِك، فِي أُمِّ وَلَدِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ حَازَهَا الْمُشْرِكُونَ، ثُمَّ غَنِمَهَا الْمُسْلِمُونَ، فَقُسِمَتْ فِي الْمَقَاسِمِ، ثُمَّ عَرَفَهَا سَيِّدُهَا بَعْدَ الْقَسْمِ: إِنَّهَا لَا تُسْتَرَقُّ، وَأَرَى أَنْ يَفْتَدِيَهَا الْإِمَامُ لِسَيِّدِهَا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَعَلَى سَيِّدِهَا أَنْ يَفْتَدِيَهَا، وَلَا يَدَعُهَا، وَلَا أَرَى لِلَّذِي صَارَتْ لَهُ أَنْ يَسْتَرِقَّهَا، وَلَا يَسْتَحِلَّ فَرْجَهَا، وَإِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْحُرَّةِ لِأَنَّ سَيِّدَهَا يُكَلَّفُ أَنْ يَفْتَدِيَهَا، إِذَا جَرَحَتْ فَهَذَا بِمَنْزِلَةِ ذَلِكَ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُسَلِّمَ أُمَّ وَلَدِهِ، تُسْتَرَقُّ، وَيُسْتَحَلُّ فَرْجُهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کی اُم ولد کو کفار پکڑ لے جائیں، پھر مسلمان اس کو غنیمت میں پائیں اور تقسیم ہو جائے، پھر اس کا مالک اس کو پہچانے بعد تقسیم کے، تو وہ اُم ولد دوبارہ لونڈی نہیں بنائی جائے گی، بلکہ امام کو چاہیے کہ مالِ غنیمت میں سے اس کو چھڑا کر مالک کے حوالہ کرے گا، اگر وہ امام نہ چھڑائے تو اس کے مالک کو چاہیے کہ فدیہ دے کر اس کو چھڑا لے، ایسا نہ کرے کہ اس کو چھوڑ دے۔ اور جس کے حصے میں وہ اُم ولد آئی ہے اس کو جائز نہیں کہ لونڈی بنائے یا اس سے جماع کرے، کیونکہ وہ اُم ولد مثل آزاد کے ہے۔ اس واسطے کہ اُم ولد اگر کسی شخص کو زخمی کرے تو اس کے مالک کو حکم ہو گا کہ فدیہ دے کر چھڑا لے، پس یہاں بھی ایسا ہی حکم ہے کہ مالک اس کا جس طرح بنے اس کو چھڑائے، یہ نہیں کہ اس کو چھوڑ دے، وہ لونڈی بنائی جائے اس سے صحبت کی جائے۔
قال يحيى: وسئل مالك، عن الرجل يخرج إلى ارض العدو في المفاداة، او في التجارة، فيشتري الحر، او العبد، او يوهبان له، فقال: اما الحر فإن ما اشتراه به دين عليه، ولا يسترق وإن كان وهب له فهو حر، وليس عليه شيء إلا ان يكون الرجل اعطى فيه شيئا مكافاة فهو دين على الحر، بمنزلة ما اشتري به، واما العبد فإن سيده الاول مخير فيه، إن شاء ان ياخذه، ويدفع إلى الذي اشتراه ثمنه، فذلك له، وإن احب ان يسلمه اسلمه، وإن كان وهب له فسيده الاول احق به، ولا شيء عليه إلا ان يكون الرجل اعطى فيه شيئا مكافاة، فيكون ما اعطى فيه غرما على سيده، إن احب ان يفتديه قَالَ يَحْيَى: وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ الرَّجُلِ يَخْرُجُ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ فِي الْمُفَادَاةِ، أَوْ فِي الِتِجَارَةٍ، فَيَشْتَرِيَ الْحُرَّ، أَوِ الْعَبْدَ، أَوْ يُوهَبَانِ لَهُ، فَقَالَ: أَمَّا الْحُرُّ فَإِنَّ مَا اشْتَرَاهُ بِهِ دَيْنٌ عَلَيْهِ، وَلَا يُسْتَرَقُّ وَإِنْ كَانَ وُهِبَ لَهُ فَهُوَ حُرٌّ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ أَعْطَى فِيهِ شَيْئًا مُكَافَأَةً فَهُوَ دَيْنٌ عَلَى الْحُرِّ، بِمَنْزِلَةِ مَا اشْتُرِيَ بِهِ، وَأَمَّا الْعَبْدُ فَإِنَّ سَيِّدَهُ الْأَوَّلَ مُخَيَّرٌ فِيهِ، إِنْ شَاءَ أَنْ يَأْخُذَهُ، وَيَدْفَعَ إِلَى الَّذِي اشْتَرَاهُ ثَمَنَهُ، فَذَلِكَ لَهُ، وَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يُسْلِمَهُ أَسْلَمَهُ، وَإِنْ كَانَ وُهِبَ لَهُ فَسَيِّدُهُ الْأَوَّلُ أَحَقُّ بِهِ، وَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ أَعْطَى فِيهِ شَيْئًا مُكَافَأَةً، فَيَكُونُ مَا أَعْطَى فِيهِ غُرْمًا عَلَى سَيِّدِهِ، إِنْ أَحَبَّ أَنْ يَفْتَدِيَهُ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص گیا کفار کے ملک میں مسلمانوں کو چھڑانے یا تجارت کے واسطے، وہاں اس نے آزاد اور غلام دونوں کو خریدا، یا کفار نے اس کو ہبہ کردیا؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اگر اس شخص نے آزاد کو خریدا تو جس قدر داموں کے بدلے میں خریدا وہ قرض سمجھا جائے گا اور وہ غلام نہ بنے گا، اور وہ جو ہبہ میں آیا تو وہ آزاد رہے گا، اس کو کچھ دینا نہ ہو گا، مگر اس صورت میں کہ ہبہ کے عوض میں اس نے کچھ خرچ کیا ہو اس قدر اس کے ذمہ پر قرض ہوگا، گویا اس کے بدلے میں خرید لیا، اور جو اس شخص نے غلام کو خریدا تو اس سے پہلے مالک کو اختیار ہے کہ جن داموں کو اس نے خریدا ہے وہ دام دے کر غلام کو لے لے یا نہ لے اسی کے پاس رہنے دے، اور جو ہبہ میں آیا تو پہلا مالک اس غلام کو مفت لے لے، البتہ اگر ہبہ کے عوض میں خرچ کیا ہو تو پہلے مالک کو ضروری ہے کہ اگر چاہے اس قدر خرچ ادا کر کے وہ غلام لے لے یا نہ لے۔