حضرت سعید بن مسیّب نے کہا: لوگ نفل کو خمس میں سے دیا کرتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: یہ میرے نزدیک اس باب میں جو میں نے سنا، مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12812، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3958، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2706، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9341، 9342، 9344، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33914، 33970، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 20»
قال مالك: وذلك احسن ما سمعت إلي في ذلك. وسئل مالك، عن النفل، هل يكون في اول مغنم؟ قال: ذلك على وجه الاجتهاد من الإمام، وليس عندنا في ذلك امر معروف موثوق إلا اجتهاد السلطان، ولم يبلغني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نفل في مغازيه كلها"، وقد بلغني انه نفل في بعضها يوم حنين، وإنما ذلك على وجه الاجتهاد من الإمام في اول مغنم وفيما بعدهقَالَ مَالِك: وَذَلِكَ أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ. وَسُئِلَ مَالِك، عَنِ النَّفَلِ، هَلْ يَكُونُ فِي أَوَّلِ مَغْنَمٍ؟ قَالَ: ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ مِنَ الْإِمَامِ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا فِي ذَلِكَ أَمْرٌ مَعْرُوفٌ مَوْثُوقٌ إِلَّا اجْتِهَادُ السُّلْطَانِ، وَلَمْ يَبْلُغْنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَفَّلَ فِي مَغَازِيهِ كُلِّهَا"، وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّهُ نَفَّلَ فِي بَعْضِهَا يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَإِنَّمَا ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ مِنَ الْإِمَامِ فِي أَوَّلِ مَغْنَمٍ وَفِيمَا بَعْدَهُ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا نفل پہلے غنیمت میں ہوتا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ امام کی رائے پر موقوف ہے، اس میں کوئی قاعدہ مقرر نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جہاد میں نفل نہیں مقرر کیا بلکہ بعض لڑائیوں میں، جیسے حنین میں، تو یہ امام کی رائے پر موقوف ہے خواہ پہلے غنیمت میں نفل مقرر کرے خواہ بعد اس کے۔