وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه سمع سعيد بن المسيب ، يقول: " كان الناس في الغزو إذا اقتسموا غنائمهم، يعدلون البعير بعشر شياه" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: " كَانَ النَّاسُ فِي الْغَزْوِ إِذَا اقْتَسَمُوا غَنَائِمَهُمْ، يَعْدِلُونَ الْبَعِيرَ بِعَشْرِ شِيَاهٍ" .
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا حضرت سعید بن مسیّب سے، کہتے تھے: جہاد میں جب لوگ غنیمتوں کو بانٹتے تھے تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 21 - كِتَابُ الْجِهَادِ-ح: 16»
قال مالك، في الاجير في الغزو: إنه إن كان شهد القتال، وكان مع الناس عند القتال، وكان حرا فله سهمه، وإن لم يفعل ذلك فلا سهم له قَالَ مَالِك، فِي الْأَجِيرِ فِي الْغَزْوِ: إِنَّهُ إِنْ كَانَ شَهِدَ الْقِتَالَ، وَكَانَ مَعَ النَّاسِ عِنْدَ الْقِتَالِ، وَكَانَ حُرًّا فَلَهُ سَهْمُهُ، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَا سَهْمَ لَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جہاد میں جو شخص اجرت پر کام کرتا ہو اگر وہ لڑائی میں مجاہدین کے ساتھ شریک رہے اور آزاد ہو تو غنیمت کے مال سے اس کو حصہ ملے گا، اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کا حصہ نہیں ہے
قال يحيى: سمعت مالكا يقول: وارى ان لا يقسم، إلا لمن شهد القتال من الاحرار قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: وَأَرَى أَنْ لَا يُقْسَمَ، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ الْقِتَالَ مِنَ الْأَحْرَارِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اور میری رائے میں حصہ اسی کو ملے گا جو لڑائی میں شریک ہو اور آزاد ہو۔
قال مالك: فيمن وجد من العدو على ساحل البحر بارض المسلمين، فزعموا انهم تجار وان البحر لفظهم. ولا يعرف المسلمون تصديق ذلك إلا ان مراكبهم تكسرت، او عطشوا فنزلوا بغير إذن المسلمين: ارى ان ذلك للإمام. يرى فيهم رايه. ولا ارى لمن اخذهم فيهم خمسا.قَالَ مَالِكٌ: فِيمَنْ وُجِدَ مِنَ الْعَدُوِّ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ بِأَرْضِ الْمُسْلِمِينَ، فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ تُجَّارٌ وَأَنَّ الْبَحْرَ لَفِظَهُمْ. وَلَا يَعْرِفُ الْمُسْلِمُونَ تَصْدِيقَ ذَلِكَ إِلَّا أَنَّ مَرَاكِبَهُمْ تَكَسَّرَتْ، أَوْ عَطِشُوا فَنَزَلُوا بِغَيْرِ إِذْنِ الْمُسْلِمِينَ: أَرَى أَنَّ ذَلِكَ لِلْإِمَامِ. يَرَى فِيهِمْ رَأْيَهُ. وَلَا أَرَى لِمَنْ أَخَذَهُمْ فِيهِمْ خُمُسًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو کفار سمندر کے کنارہ پر مسلمانوں کی زمین میں ملیں اور یہ کہیں کہ ہم سوداگر تھے، دریا نے ہم کو یہاں پھینک دیا، مگر مسلمانوں کو اس امر کی تصدیق نہ ہو، البتہ یہ گمان ہو کہ جہاز ان کا ٹوٹ گیا، یا پیاس کے سبب سے اتر پڑے بغیر اجازت مسلمانوں کے، تو امام کو ان کے بارے میں اختیار ہے، اور جن لوگوں نے گرفتار کیا ان کو خمس نہیں ملے گا۔
قال مالك: لا ارى باسا ان ياكل المسلمون إذا دخلوا ارض العدو من طعامهم، ما وجدوا من ذلك كله قبل ان يقع في المقاسم. قال مالك: وانا ارى الإبل والبقر والغنم بمنزلة الطعام. ياكل منه المسلمون إذا دخلوا ارض العدو. كما ياكلون من الطعام. قَالَ مَالِكٍ: لَا أَرَى بَأْسًا أَنْ يَأْكُلَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا دَخَلُوا أَرْضَ الْعَدُوِّ مِنْ طَعَامِهِمْ، مَا وَجَدُوا مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ فِي الْمَقَاسِمِ. قَالَ مَالِكٍ: وَأَنَا أَرَى الْإِبِلَ وَالْبَقَرَ وَالْغَنَمَ بِمَنْزِلَةِ الطَّعَامِ. يَأْكُلُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ إِذَا دَخَلُوا أَرْضَ الْعَدُوِّ. كَمَا يَأْكُلُونَ مِنَ الطَّعَامِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جب مسلمان کفار کے ملک میں داخل ہوں اور وہاں کھانے کی چیزیں پائیں تو تقسیم سے پہلے کھانا درست ہے۔
قال مالك: ولو ان ذلك لا يؤكل حتى يحضر الناس المقاسم، ويقسم بينهم، اضر ذلك بالجيوش. فلا ارى باسا بما اكل من ذلك كله، على وجه المعروف. ولا ارى ان يدخر احد من ذلك شيئا يرجع به إلى اهله. قَالَ مَالِكٍ: وَلَوْ أَنَّ ذَلِكَ لَا يُؤْكَلُ حَتَّى يَحْضُرَ النَّاسُ الْمَقَاسِمَ، وَيُقْسَمَ بَيْنَهُمْ، أَضَرَّ ذَلِكَ بِالْجُيُوشِ. فَلَا أَرَى بَأْسًا بِمَا أُكِلَ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ، عَلَى وَجْهِ الْمَعْرُوفِ. وَلَا أَرَى أَنْ يَدَّخِرَ أَحَدٌ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا يَرْجِعُ بِهِ إِلَى أَهْلِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اونٹ اور بیل اور بکریاں بھی کھانے کی چیزیں ہیں، قبل تقسیم کے کھانا ان کا درست ہے۔
وسئل مالك عن الرجل يصيب الطعام في ارض العدو، فياكل منه ويتزود، فيفضل منه شيء، ايصلح له ان يحبسه فياكله في اهله، او يبيعه قبل ان يقدم بلاده فينتفع بثمنه؟وَسُئِلَ مالكٌ عَنِ الرَّجُلِ يُصِيبُ الطَّعَامَ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ وَيَتَزَوَّدُ، فَيَفْضُلُ مِنْهُ شَيْءٌ، أَيَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَحْبِسَهُ فَيَأْكُلَهُ فِي أَهْلِهِ، أَوْ يَبِيعَهُ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ بِلَادَهُ فَيَنْتَفِعَ بِثَمَنهِ؟
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر یہ چیزیں نہ کھائی جائیں اور تقسیم کے واسطے لائی جائیں تو لشکر کو تکلیف ہو، اس صورت میں کھانا ان کا درست ہے، مگر بقدرِ ضرورت دستور کے موافق، اور یہ درست نہیں کہ ان میں سے کوئی چیز رکھ چھوڑے اور اپنے گھر لے جائے۔
قال مالك: إن باعه وهو في الغزو، فإني ارى ان يجعل ثمنه في غنائم المسلمين. وإن بلغ به بلده، فلا ارى باسا ان ياكله وينتفع به، إذا كان يسيرا تافها. قَالَ مَالِكٌ: إِنْ بَاعَهُ وَهُوَ فِي الْغَزْوِ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ يَجْعَلَ ثَمَنَهُ فِي غَنَائِمِ الْمُسْلِمِينَ. وَإِنْ بَلَغَ بِهِ بَلَدَهُ، فَلَا أَرَى بَأْسًا أَنْ يَأْكُلَهُ وَيَنْتَفِعَ بِهِ، إِذَا كَانَ يَسِيرًا تَافِهًا.
سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے: اگر کوئی شخص کفار کے ملک میں کھانا پائے، اور ان میں سے کھائے اور کچھ بچ رہے تو اپنے گھر میں لے آنا یا راستے میں بیچ کر اس کی قیمت لینا درست ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: اگر جہاد کی حالت میں اس کو تو بیچے تو قیمت اس کی غنیمت میں داخل کر دے، اور جو اپنے شہر میں چلا آئے تو اس صورت میں اس کا کھانا یا اس کی قیمت سے نفع اٹھانا درست ہے جب وہ چیز قلیل اور حقیر ہو۔