حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ان کو حیض آ گیا تھا، یا زچگی ہوئی تھی، بعد طوافِ افاضہ کے یوم النحر کو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ چلی گئیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه الطبراني فى "الكبير"، 312، والشافعي فى «الاُم» برقم: 181/2، وأما حديث أم سليم أم أنس بن مالك أخرجه الطبراني فى "الكبير"، 314، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9868، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1756، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 229»
قال مالك: والمراة تحيض بمنى تقيم حتى تطوف بالبيت لا بد لها من ذلك، وإن كانت قد افاضت، فحاضت بعد الإفاضة، فلتنصرف إلى بلدها، فإنه قد بلغنا في ذلك رخصة من رسول الله صلى الله عليه وسلم للحائض.قَالَ مَالِك: وَالْمَرْأَةُ تَحِيضُ بِمِنًى تُقِيمُ حَتَّى تَطُوفَ بِالْبَيْتِ لَا بُدَّ لَهَا مِنْ ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَتْ قَدْ أَفَاضَتْ، فَحَاضَتْ بَعْدَ الْإِفَاضَةِ، فَلْتَنْصَرِفْ إِلَى بَلَدِهَا، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا فِي ذَلِكَ رُخْصَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَائِضِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس عورت کو حیض آجائے منیٰ میں تو وہ ٹھہری رہے یہاں تک کہ وہ طوافِ افاضہ کرے، اور اگر طوافِ افاضہ کے بعد اس کو حیض آیا تو اپنے شہر کو چلی جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو رخصت پہنچی ہے حائضہ کے واسطے
قال: وإن حاضت المراة بمنى قبل ان تفيض، فإن كريها يحبس عليها اكثر مما يحبس النساء الدم قَالَ: وَإِنْ حَاضَتِ الْمَرْأَةُ بِمِنًى قَبْلَ أَنْ تُفِيضَ، فَإِنَّ كَرِيَّهَا يُحْبَسُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِمَّا يَحْبِسُ النِّسَاءَ الدَّمُ
اور اگر حیض آیا طوافِ افاضہ سے پہلے، پھر خون بند نہ ہوا تو اکثر مدت لگا لیں گے۔