حدثني يحيى، عن مالك، انه سال ابن شهاب عن الزيتون، فقال: " فيه العشر" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنِ الزَّيْتُونِ، فَقَالَ: " فِيهِ الْعُشْرُ"
امام مالک رحمہ اللہ نے پوچھا ابن شہاب سے کہ زیتون میں کیا واجب ہے؟ بولے: دسواں حصہ۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7547، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2327، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7193، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10141، شركة الحروف نمبر: 559، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 35»
قال مالك: وإنما يؤخذ من الزيتون العشر، بعد ان يعصر ويبلغ زيتونه خمسة اوسق، فما لم يبلغ زيتونه خمسة اوسق فلا زكاة فيهقَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ مِنَ الزَّيْتُونِ الْعُشْرُ، بَعْدَ أَنْ يُعْصَرَ وَيَبْلُغَ زَيْتُونُهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، فَمَا لَمْ يَبْلُغْ زَيْتُونُهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَلَا زَكَاةَ فِيهِ
والزيتون بمنزلة النخيل ما كان منه سقته السماء والعيون، او كان بعلا ففيه العشر، وما كان يسقى بالنضح ففيه نصف العشر، ولا يخرص شيء من الزيتون في شجره وَالزَّيْتُونُ بِمَنْزِلَةِ النَّخِيلِ مَا كَانَ مِنْهُ سَقَتْهُ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ، أَوْ كَانَ بَعْلًا فَفِيهِ الْعُشْرُ، وَمَا كَانَ يُسْقَى بِالنَّضْحِ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَلَا يُخْرَصُ شَيْءٌ مِنَ الزَّيْتُونِ فِي شَجَرِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: زیتون مثل کھجور کے ہے، اگر وہ باران یا چشمہ سے پیدا ہوتا ہو یا خود بخود پیدا ہوتا ہو اور اس میں پانی کی حاجت نہ ہو تو اس میں دسواں حصہ لازم ہوگا، اور جو پانی سینچ کر اس میں دیا جائے تو بیسواں حصہ لازم ہوگا، اور زیتون کا خرص کرنا جب وہ درخت میں لگا ہو درست ہے۔
والسنة عندنا في الحبوب التي يدخرها الناس، وياكلونها انه يؤخذ مما سقته السماء من ذلك، وما سقته العيون وما كان بعلا العشر وما سقي بالنضح نصف العشر إذا بلغ ذلك خمسة اوسق بالصاع الاول، صاع النبي صلى الله عليه وسلم، وما زاد على خمسة اوسق ففيه الزكاة بحساب ذلك. وَالسُّنَّةُ عِنْدَنَا فِي الْحُبُوبِ الَّتِي يَدَّخِرُهَا النَّاسُ، وَيَأْكُلُونَهَا أَنَّهُ يُؤْخَذُ مِمَّا سَقَتْهُ السَّمَاءُ مِنْ ذَلِكَ، وَمَا سَقَتْهُ الْعُيُونُ وَمَا كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ إِذَا بَلَغَ ذَلِكَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ بِالصَّاعِ الْأَوَّلِ، صَاعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا زَادَ عَلَى خَمْسَةِ أَوْسُقٍ فَفِيهِ الزَّكَاةُ بِحِسَابِ ذَلِكَ.
کہا: جتنے قسم کے غلے میں جن کو لوگ کھاتے ہیں یا رکھ چھوڑتے ہیں، اگر بارش سے یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوں یا ان کو پانی کی احتیاج نہ ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے، اور جن میں پانی سینچ کر دیا جائے ان میں بیسواں حصہ لازم ہے، جب وہ پانچ وسق کے مقدار ہوں، ہر وسق ساٹھ صاع کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع سے، اور جو اس سے زیادہ ہوں تو بھی اسی کے حساب سے زکوٰۃ لی جائے۔
قال مالك: والحبوب التي فيها الزكاة الحنطة والشعير والسلت والذرة والدخن والارز والعدس والجلبان واللوبيا والجلجلان وما اشبه ذلك من الحبوب التي تصير طعاما، فالزكاة تؤخذ منها بعد ان تحصد وتصير حبا، قال: والناس مصدقون في ذلك ويقبل منهم في ذلك ما دفعواقَالَ مَالِك: وَالْحُبُوبُ الَّتِي فِيهَا الزَّكَاةُ الْحِنْطَةُ وَالشَّعِيرُ وَالسُّلْتُ وَالذُّرَةُ وَالدُّخْنُ وَالْأُرْزُ وَالْعَدَسُ وَالْجُلْبَانُ وَاللُّوبِيَا وَالْجُلْجُلَانُ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنَ الْحُبُوبِ الَّتِي تَصِيرُ طَعَامًا، فَالزَّكَاةُ تُؤْخَذُ مِنْهَا بَعْدَ أَنْ تُحْصَدَ وَتَصِيرَ حَبًّا، قَالَ: وَالنَّاسُ مُصَدَّقُونَ فِي ذَلِكَ وَيُقْبَلُ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ مَا دَفَعُوا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جن غلوں میں زکوٰۃ واجب ہے وہ یہ ہیں: گیہوں، اور جو پوست دار اور بے پوست دار، اور جوار، اور چنا، اور چاول، اور مسور، اور ماش، اور لوبیا، اور تل، اور جو مشابہ ہوں ان کے غلوں میں سے جو کھائے جاتے ہیں، تو ان سب میں سے زکوٰۃ لی جائے گی جب وہ کٹ کر تیار ہوں اور دانے صاف ہو جائیں۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ان چیزوں کی زکوٰۃ میں ان کے قول کی تصدیق ہوگی، اور جس قدر دیں گے قبول کر لیا جائے گا۔
وسئل مالك، متى يخرج من الزيتون العشر او نصفه اقبل النفقة ام بعدها؟ فقال: لا ينظر إلى النفقة، ولكن يسال عنه اهله كما يسال اهل الطعام عن الطعام، ويصدقون بما قالوا فمن رفع من زيتونه خمسة اوسق فصاعدا اخذ من زيته العشر بعد ان يعصر، ومن لم يرفع من زيتونه خمسة اوسق لم تجب عليه في زيته الزكاة وَسُئِلَ مَالِك، مَتَى يُخْرَجُ مِنَ الزَّيْتُونِ الْعُشْرُ أَوْ نِصْفُهُ أَقَبْلَ النَّفَقَةِ أَمْ بَعْدَهَا؟ فَقَالَ: لَا يُنْظَرُ إِلَى النَّفَقَةِ، وَلَكِنْ يُسْأَلُ عَنْهُ أَهْلُهُ كَمَا يُسْأَلُ أَهْلُ الطَّعَامِ عَنِ الطَّعَامِ، وَيُصَدَّقُونَ بِمَا قَالُوا فَمَنْ رُفِعَ مِنْ زَيْتُونِهِ خَمْسَةُ أَوْسُقٍ فَصَاعِدًا أُخِذَ مِنْ زَيْتِهِ الْعُشْرُ بَعْدَ أَنْ يُعْصَرَ، وَمَنْ لَمْ يُرْفَعْ مِنْ زَيْتُونِهِ خَمْسَةُ أَوْسُقٍ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِ فِي زَيْتِهِ الزَّكَاةُ
کہا یحییٰ نے سوال ہوا امام مالک رحمہ اللہ سے کہ زیتون کا دسواں حصہ کب نکالا جائے گا، قبل خرچ کے یا بعد خرچ کے؟ انہوں نے جواب دیا کہ خرچ اخراجات کو دیکھنا کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے مالک سے پوچھیں گے۔ جیسے غلہ کے مالک سے پوچھتے ہیں، وہ کہیں گے ان کی تصدیق ہوگی، پس جو شخص اپنے زیتون سے پانچ وسق یا زیادہ دانے پائے گا اس سے دسواں حصہ تیل کا لیا جائے گا، اور جو اس سے کم پائے گا اس سے کچھ کم لیا جائے گا۔
قال مالك: ومن باع زرعه وقد صلح ويبس في اكمامه فعليه زكاته، وليس على الذي اشتراه زكاة، ولا يصلح بيع الزرع حتى ييبس في اكمامه، ويستغني عن الماء قَالَ مَالِك: وَمَنْ بَاعَ زَرْعَهُ وَقَدْ صَلَحَ وَيَبِسَ فِي أَكْمَامِهِ فَعَلَيْهِ زَكَاتُهُ، وَلَيْسَ عَلَى الَّذِي اشْتَرَاهُ زَكَاةٌ، وَلَا يَصْلُحُ بَيْعُ الزَّرْعِ حَتَّى يَيْبَسَ فِي أَكْمَامِهِ، وَيَسْتَغْنِيَ عَنِ الْمَاءِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جب کھیت پک کر تیار ہو جائے اور مالک اس کو بیچ ڈالے تو مالک پر زکوٰۃ ہوگی، نہ خریدار پر۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: کھیت کا بیچنا درست نہیں ہے جب تک پک کر پھل بالیوں میں سوکھ نہ جائیں اور پانی نہ دینے کی احتیاج نہ رہے۔
قال مالك: في قول الله تعالى: وآتوا حقه يوم حصاده سورة الانعام آية 141 ان ذلك الزكاة، وقد سمعت من يقول ذلك قَالَ مَالِك: فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ سورة الأنعام آية 141 أَنَّ ذَلِكَ الزَّكَاةُ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَنْ يَقُولُ ذَلِكَ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: یہ جو فرمایا اللہ تعالیٰ نے: «﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾ [الأنعام: 141] » یعنی ”دو حق غلے کا وقت کاٹنے کے۔“ مراد اس سے زکوٰۃ ہے، اور میں نے سنا ایک شخص سے جو یہ کہتے تھے۔
قال مالك: ومن باع اصل حائطه او ارضه وفي ذلك زرع او ثمر لم يبد صلاحه، فزكاة ذلك على المبتاع وإن كان قد طاب وحل بيعه، فزكاة ذلك على البائع إلا ان يشترطها على المبتاعقَالَ مَالِك: وَمَنْ بَاعَ أَصْلَ حَائِطِهِ أَوْ أَرْضَهُ وَفِي ذَلِكَ زَرْعٌ أَوْ ثَمَرٌ لَمْ يَبْدُ صَلَاحُهُ، فَزَكَاةُ ذَلِكَ عَلَى الْمُبْتَاعِ وَإِنْ كَانَ قَدْ طَابَ وَحَلَّ بَيْعُهُ، فَزَكَاةُ ذَلِكَ عَلَى الْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَهَا عَلَى الْمُبْتَاعِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص نے اپنا باغ بیچا یا زمین بیچی اور اس میں کھیت ہے یا پھل ہیں جن کی بہتری کا حال معلوم ہو گیا اور بیع اس کی درست ہوئی تو زکوٰۃ اس کے بائع پر ہے، مگر یہ کہ بائع شرط کرے خریدار سے کہ زکوٰۃ اس کی خریدار دے تو خریدار پر لازم ہوگی۔
قال مالك: إن الرجل إذا كان له ما يجد منه اربعة اوسق من التمر، وما يقطف منه اربعة اوسق من الزبيب، وما يحصد منه اربعة اوسق من الحنطة، وما يحصد منه اربعة اوسق من القطنية إنه لا يجمع عليه بعض ذلك إلى بعض. وإنه ليس عليه في شيء من ذلك زكاة. حتى يكون في الصنف الواحد من التمر، او في الزبيب، او في الحنطة، او في القطنية، ما يبلغ الصنف الواحد منه خمسة اوسق بصاع النبي صلى الله عليه وسلم. كما قال رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم: ”ليس فيما دون خمسة اوسق من التمر صدقة، وإن كان في الصنف الواحد من تلك الاصناف ما يبلغ خمسة اوسق ففيه الزكاة. فإن لم يبلغ خمسة اوسق فلا زكاة فيه.“ وتفسير ذلك ان يجذ الرجل من التمر خمسة اوسق. وإن اختلفت اسماؤه والوانه، فإنه يجمع بعضه إلى بعض، ثم يؤخذ من ذلك الزكاة. فإن لم يبلغ ذلك، فلا زكاة فيه. قَالَ مَالِكٌ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا كَانَ لَهُ مَا يَجُدُّ مِنْهُ أَرْبَعَةَ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ، وَمَا يَقْطُفُ مِنْهُ أَرْبَعَةَ أَوْسُقٍ مِنَ الزَّبِيبِ، وَمَا يَحْصُدُ مِنْهُ أَرْبَعَةَ أَوْسُقٍ مِنَ الْحِنْطَةِ، وَمَا يَحْصُدُ مِنْهُ أَرْبَعَةَ أَوْسُقٍ مِنَ الْقِطْنِيَّةِ إِنَّهُ لَا يُجْمَعُ عَلَيْهِ بَعْضُ ذَلِكَ إِلَى بَعْضٍ. وَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ زَكَاةٌ. حَتَّى يَكُونَ فِي الصِّنْفِ الْوَاحِدِ مِنَ التَّمْرِ، أَوْ فِي الزَّبِيبِ، أَوْ فِي الْحِنْطَةِ، أَوْ فِي الْقِطْنِيَّةِ، مَا يَبْلُغُ الصِّنْفُ الْوَاحِدُ مِنْهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ بِصَاعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. كَمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ، وَإِنْ كَانَ فِي الصِّنْفِ الْوَاحِدِ مِنْ تِلْكَ الْأَصْنَافِ مَا يَبْلُغُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَفِيهِ الزَّكَاةُ. فَإِنْ لَمْ يَبْلُغْ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ فَلَا زَكَاةَ فِيهِ.“ وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ يَجُذَّ الرَّجُلُ مِنَ التَّمْرِ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ. وَإِنِ اخْتَلَفَتْ أَسْمَاؤُهُ وَأَلْوَانُهُ، فَإِنَّهُ يُجْمَعُ بَعْضُهُ إِلَى بَعْضٍ، ثُمَّ يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ الزَّكَاةُ. فَإِنْ لَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ، فَلَا زَكَاةَ فِيهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اس قدر مال رکھتا ہو کہ چار وسق کھجور کے اس میں سے نکلیں اور چار وسق انگور کے اور چار وسق گیہوں کے اور چار وسق اور کسی غلے کے تو ان غلوں کو جمع کر کے اس پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی جب تک کہ ایک ہی قسم کی کھجور یا انگور یا گیہوں وغیرہ پانچ وسق کے مقدار نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع سے، کیونکہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”پانچ وسق سے جو کھجور کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“
وكذلك الحنطة كلها السمراء والبيضاء والشعير والسلت، كل ذلك صنف واحد. فإذا حصد الرجل من ذلك كله خمسة اوسق، جمع عليه بعض ذلك إلى بعض، ووجبت فيه الزكاة. فإن لم يبلغ ذلك فلا زكاة فيهوَكَذَلِكَ الْحِنْطَةُ كُلُّهَا السَّمْرَاءُ وَالْبَيْضَاءُ وَالشَّعِيرُ وَالسُّلْتُ، كُلُّ ذَلِكَ صِنْفٌ وَاحِدٌ. فَإِذَا حَصَدَ الرَّجُلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، جُمِعَ عَلَيْهِ بَعْضُ ذَلِكَ إِلَى بَعْضٍ، وَوَجَبَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ. فَإِنْ لَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ فَلَا زَكَاةَ فِيهِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کھجور کئی قسم کی ہوں، جن کا نام جدا جدا ہو تو ان سب کو جمع کریں گے، اور جو پوست دار اور بے پوست دار ایک ہی سمجھے جائیں گے، جب پانچ وسق سب ملا کر ہو جائیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی، ورنہ واجب نہ ہوگی۔
وكذلك الزبيب كله، اسوده واحمره، فإذا قطف الرجل منه خمسة اوسق وجبت فيه الزكاة. فإن لم يبلغ ذلك فلا زكاة فيهوَكَذَلِكَ الزَّبِيبُ كُلُّهُ، أَسْوَدُهُ وَأَحْمَرُهُ، فَإِذَا قَطَفَ الرَّجُلُ مِنْهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ وَجَبَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ. فَإِنْ لَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ فَلَا زَكَاةَ فِيهِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اسی طرح انگور سیاہ اور سرخ اکٹھا جوڑے جائیں گے، جب پانچ وسق نکلیں گے تو ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی، اس سے کم میں زکوٰۃ نہ ہوگی۔
وكذلك القطنية هي صنف واحد. مثل الحنطة والتمر والزبيب وإن اختلفت اسماؤها والوانها. والقطنية: الحمص والعدس واللوبيا والجلبان وكل ما ثبت معرفته عند الناس انه قطنية. فإذا حصد الرجل من ذلك خمسة اوسق بالصاع الاول، صاع النبي صلى الله عليه وسلم. وإن كان من اصناف القطنية كلها، ليس من صنف واحد من القطنية فإنه يجمع ذلك بعضه إلى بعض، وعليه فيه الزكاةوَكَذَلِكَ الْقِطْنِيَّةُ هِيَ صِنْفٌ وَاحِدٌ. مِثْلُ الْحِنْطَةِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِيبِ وَإِنِ اخْتَلَفَتْ أَسْمَاؤُهَا وَأَلْوَانُهَا. وَالْقِطْنِيَّةُ: الْحِمَّصُ وَالْعَدَسُ وَاللُّوبِيَا وَالْجُلْبَانُ وَكُلُّ مَا ثَبَتَ مَعْرِفَتُهُ عِنْدَ النَّاسِ أَنَّهُ قِطْنِيَّةٌ. فَإِذَا حَصَدَ الرَّجُلُ مِنْ ذَلِكَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ بِالصَّاعِ الْأَوَّلِ، صَاعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْنَافِ الْقِطْنِيَّةِ كُلِّهَا، لَيْسَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنَ الْقِطْنِيَّةِ فَإِنَّهُ يُجْمَعُ ذَلِكَ بَعْضُهُ إِلَى بَعْضٍ، وَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اسی طرح قطنیہ وہ ایک قسم شمار کی جائے گی اگرچہ اس کے نام اور اقسام مختلف ہوں۔ قطنیہ کہتے ہیں چنا اور مسور اور لوبیا اور ماش کو اور جو چیزیں ان کی مثل ہیں جن کو لوگ قطنیہ سمجھیں، یہ سب چیزیں مل کر اگر پانچ وسق کو پہنچیں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاع سے، تو ان میں زکوٰۃ واجب ہوگی اگرچہ یہ قطنیہ کئی قسم ہوں، ایک قسم نہ ہوں، مگر سب اکٹھی جوڑ لی جائیں گی اور زکوٰۃ لازم ہوگی۔
قال مالك: وقد فرق عمر بن الخطاب بين القطنية والحنطة فيما اخذ من النبط. وراى ان القطنية كلها صنف واحد. فاخذ منها العشر، واخذ من الحنطة والزبيب نصف العشرقَالَ مَالِكٌ: وَقَدْ فَرَّقَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بَيْنَ الْقِطْنِيَّةِ وَالْحِنْطَةِ فِيمَا أُخِذَ مِنَ النَّبَطِ. وَرَأَى أَنَّ الْقِطْنِيَّةَ كُلَّهَا صِنْفٌ وَاحِدٌ. فَأَخَذَ مِنْهَا الْعُشْرَ، وَأَخَذَ مِنَ الْحِنْطَةِ وَالزَّبِيبِ نِصْفَ الْعُشْرِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرق کیا گیہوں اور قطنیہ میں جب محصول لیا نبط کے نصاریٰ سے، انہوں نے قطنیہ کو ایک ہی قسم رکھا اور اس میں سے دسواں حصہ لیا اور گیہوں اور انگور میں سے بیسواں حصہ لیا۔
قال مالك: فإن قال قائل: كيف يجمع القطنية بعضها إلى بعض في الزكاة حتى تكون صدقتها واحدة، والرجل ياخذ منها اثنين بواحد يدا بيد، ولا يؤخذ من الحنطة اثنان بواحد يدا بيد؟ قيل له: فإن الذهب والورق يجمعان في الصدقة. وقد يؤخذ بالدينار اضعافه في العدد من الورق يدا بيدقَالَ مَالِكٌ: فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: كَيْفَ يُجْمَعُ الْقِطْنِيَّةُ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ فِي الزَّكَاةِ حَتَّى تَكُونَ صَدَقَتُهَا وَاحِدَةً، وَالرَّجُلُ يَأْخُذُ مِنْهَا اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ، وَلَا يُؤْخَذُ مِنَ الْحِنْطَةِ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ؟ قِيلَ لَهُ: فَإِنَّ الذَّهَبَ وَالْوَرِقَ يُجْمَعَانِ فِي الصَّدَقَةِ. وَقَدْ يُؤْخَذُ بِالدِّينَارِ أَضْعَافُهُ فِي الْعَدَدِ مِنَ الْوَرِقِ يَدًا بِيَدٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کوئی شخص اعتراض کرے کہ قطنیہ کی سب قسموں کو زکوٰۃ میں ایک ہی قسم مقرر کیا حالانکہ ربوا کے باب میں وہ علیحدہ قسمیں سمجھی جاتی ہیں اس لیے کہ ماش کے ایک سیر کے بدلے دو سیر مسور لینا نقد درست ہے، مگر گیہوں البتہ ایک قسم ہے، کیونکہ ایک سیر زرد گیہوں کے بدلے میں دو سیر سفید گیہوں لینا درست نہیں ہے۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ زکوٰۃ اور ربوا کا حال یکساں نہیں ہے، دیکھو چاندی سونا زکوٰۃ میں ایک ہی جگہ جوڑ کر زکوٰۃ دیتے ہیں، حالانکہ ایک اشرفی کے بدلے میں کئی حصے اس سے زیادہ چاندی لے سکتے ہیں۔
قال مالك: في النخيل يكون بين الرجلين فيجذان منها ثمانية اوسق من التمر: إنه لا صدقة عليهما فيها. وإنه إن كان لاحدهما منها ما يجذ منه خمسة اوسق، وللآخر ما يجذ اربعة اوسق، او اقل من ذلك في ارض واحدة، كانت الصدقة على صاحب الخمسة الاوسق وليس على الذي جذ اربعة اوسق او اقل منها، صدقةقَالَ مَالِكٌ: فِي النَّخِيلِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيَجُذَّانِ مِنْهَا ثَمَانِيَةَ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ: إِنَّهُ لَا صَدَقَةَ عَلَيْهِمَا فِيهَا. وَإِنَّهُ إِنْ كَانَ لِأَحَدِهِمَا مِنْهَا مَا يَجُذُّ مِنْهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، وَلِلْآخَرِ مَا يَجُذُّ أَرْبَعَةَ أَوْسُقٍ، أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ فِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ، كَانَتِ الصَّدَقَةُ عَلَى صَاحِبِ الْخَمْسَةِ الْأَوْسُقِ وَلَيْسَ عَلَى الَّذِي جَذَّ أَرْبَعَةَ أَوْسُقٍ أَوْ أَقَلَّ مِنْهَا، صَدَقَةٌ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر دو آدمی کھجور میں شریک ہوں اور ایک کے حصے میں چار وسق کھجور اور دوسرے کے حصے میں بھی اس قدر آئے تو زکوٰۃ کسی پر واجب نہیں ہے، البتہ اگر ایک کے حصے میں بھی پانچ وسق کھجور آئے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، مگر جس کے حصے میں اس سے کم آئے اس پر واجب نہ ہوگی۔
وكذلك العمل في الشركاء كلهم. في كل زرع من الحبوب كلها يحصد، او النخل يجد او الكرم يقطف، فإنه إذا كان كل رجل منهم يجد من التمر، او يقطف من الزبيب، خمسة اوسق. او يحصد من الحنطة خمسة اوسق. فعليه فيه الزكاة، ومن كان حقه اقل من خمسة اوسق فلا صدقة عليه. وإنما تجب الصدقة على من بلغ جداده او قطافه او حصاده خمسة اوسقوَكَذَلِكَ الْعَمَلُ فِي الشُّرَكَاءِ كُلِّهِمْ. فِي كُلِّ زَرْعٍ مِنَ الْحُبُوبِ كُلِّهَا يُحْصَدُ، أَوِ النَّخْلُ يُجَدُّ أَوِ الْكَرْمُ يُقْطَفُ، فَإِنَّهُ إِذَا كَانَ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ يَجُدُّ مِنَ التَّمْرِ، أَوْ يَقْطِفُ مِنَ الزَّبِيبِ، خَمْسَةَ أَوْسُقٍ. أَوْ يَحْصُدُ مِنَ الْحِنْطَةِ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ. فَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ، وَمَنْ كَانَ حَقُّهُ أَقَلَّ مِنْ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ فَلَا صَدَقَةَ عَلَيْهِ. وَإِنَّمَا تَجِبُ الصَّدَقَةُ عَلَى مَنْ بَلَغَ جُدَادُهُ أَوْ قِطَافُهُ أَوْ حَصَادُهُ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اسی طرح اور پھلوں اور دانوں میں حکم ہے، جب ہر شریک کے حصے میں پانچ وسق کھجور یا انگور کے یا گیہوں کے آئیں تو زکوٰۃ واجب ہوگی، اور جس کے حصے میں اس سے کم آئے اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔
قال مالك: السنة عندنا، ان كل ما اخرجت زكاته من هذه الاصناف كلها، الحنطة والتمر والزبيب والحبوب كلها، ثم امسكه صاحبه بعد ان ادى صدقته سنين. ثم باعه، انه ليس عليه في ثمنه زكاة، حتى يحول على ثمنه الحول من يوم باعه. إذا كان اصل تلك الاصناف من فائدة او غيرها. وانه لم يكن للتجارة. وإنما ذلك بمنزلة الطعام والحبوب والعروض يفيدها الرجل ثم يمسكها سنين. ثم يبيعها بذهب او ورق، فلا يكون عليه في ثمنها زكاة حتى يحول عليها الحول من يوم باعها. فإن كان اصل تلك العروض للتجارة فعلى صاحبها فيها الزكاة حين يبيعها، إذا كان قد حبسها سنة، من يوم زكى المال الذي ابتاعها بهقَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ عِنْدَنَا، أَنَّ كُلَّ مَا أُخْرِجَتْ زَكَاتُهُ مِنْ هَذِهِ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا، الْحِنْطَةِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِيبِ وَالْحُبُوبِ كُلِّهَا، ثُمَّ أَمْسَكَهُ صَاحِبُهُ بَعْدَ أَنْ أَدَّى صَدَقَتَهُ سِنِينَ. ثُمَّ بَاعَهُ، أَنَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِ فِي ثَمَنِهِ زَكَاةٌ، حَتَّى يَحُولَ عَلَى ثَمَنِهِ الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ بَاعَهُ. إِذَا كَانَ أَصْلُ تِلْكَ الْأَصْنَافِ مِنْ فَائِدَةٍ أَوْ غَيْرِهَا. وَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِلتِّجَارَةِ. وَإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الطَّعَامِ وَالْحُبُوبِ وَالْعُرُوضِ يُفِيدُهَا الرَّجُلُ ثُمَّ يُمْسِكُهَا سِنِينَ. ثُمَّ يَبِيعُهَا بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ، فَلَا يَكُونُ عَلَيْهِ فِي ثَمَنِهَا زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ بَاعَهَا. فَإِنْ كَانَ أَصْلُ تِلْكَ الْعُرُوضِ لِلتِّجَارَةِ فَعَلَى صَاحِبِهَا فِيهَا الزَّكَاةُ حِينَ يَبِيعُهَا، إِذَا كَانَ قَدْ حَبَسَهَا سَنَةً، مِنْ يَوْمَ زَكَّى الْمَالَ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک سنّت یہ ہے کہ جن غلوں کی زکوٰۃ مالک دے چکے مثل کھجور واجب نہ ہوگی، جب تک اس قیمت پر ایک سال پورا نہ گزرے، یہ اس صورت میں ہے کہ وہ غلہ ہبہ یا میراث سے اس کے قبضے میں آیا ہو اور تجارت کا مال نہ ہو، کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص کے پاس کھانا یا دانے یا اسباب ہو پھر وہ اس کو کئی برس تک رکھ چھوڑے، پھر اس کو بیچے سونے یا چاندی کے عوض میں تو زرِ ثمن کی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی جب تک ایک سال اس پر نہ گزرے بیع کی تاریخ سے۔ البتہ اگر یہ اجناس تجارت کے ہوں تو بیچتے وقت اس کے مالک پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر ایک سال تک اس کو روک رکھا ہو بعد زکوٰۃ کے۔
قال مالك: السنة التي لا اختلاف فيها عندنا، والذي سمعت من اهل العلم، انه ليس في شيء من الفواكه كلها صدقة: الرمان، والفرسك والتين، وما اشبه ذلك وما لم يشبهه. إذا كان من الفواكه. قال: ولا في القضب ولا في البقول كلها صدقة. ولا في اثمانها إذا بيعت صدقة، حتى يحول على اثمانها الحول من يوم بيعها، ويقبض صاحبها ثمنها وهو نصاب.قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا عِنْدَنَا، وَالَّذِي سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْفَوَاكِهِ كُلِّهَا صَدَقَةٌ: الرُّمَّانِ، وَالْفِرْسِكِ وَالتِّينِ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَمَا لَمْ يُشْبِهْهُ. إِذَا كَانَ مِنَ الْفَوَاكِهِ. قَالَ: وَلَا فِي الْقَضْبِ وَلَا فِي الْبُقُولِ كُلِّهَا صَدَقَةٌ. وَلَا فِي أَثْمَانِهَا إِذَا بِيعَتْ صَدَقَةٌ، حَتَّى يَحُولَ عَلَى أَثْمَانِهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمِ بَيْعِهَا، وَيَقْبِضُ صَاحِبُهَا ثَمَنَهَا وَهُوَ نِصَابٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک اس سنّت میں اختلاف نہیں ہے، اور ہم نے یہی سنا ہے اہلِ علم سے کہ کسی میوے میں زکوٰۃ نہیں ہے: انار، اور شفتالو، اور انجیر میں اور جو ان کے مشابہ ہیں میووں میں سے، اسی طرح زکوٰۃ نہیں ہے ساگوں اور ترکاریوں میں، اور نہ اس کی زرِ قیمت میں جب تک کہ اس پر ایک سال نہ گزرے بیع کے روز سے، اور قبضِ ثمن کے روز سے، اس وقت اس کے مالک پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر ایک سال تک اس کو روک رکھا ہو بعد زکوٰۃ کے۔