عن سفيان بن عبد اللٰه، ان عمر بن الخطاب بعثه مصدقا فكان يعد على الناس بالسخل. فقالوا: اتعد علينا بالسخل؟ ولا تاخذ منه شيئا فلما قدم على عمر بن الخطاب ذكر له ذلك فقال عمر: نعم تعد عليهم بالسخلة، يحملها الراعي، ولا تاخذها ولا تاخذ الاكولة، ولا الربى ولا الماخض ولا فحل الغنم، وتاخذ الجذعة والثنية وذلك عدل بين غذاء الغنم وخياره. عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا فَكَانَ يَعُدُّ عَلَى النَّاسِ بِالسَّخْلِ. فَقَالُوا: أَتَعُدُّ عَلَيْنَا بِالسَّخْلِ؟ وَلَا تَأْخُذُ مِنْهُ شَيْئًا فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ تَعُدُّ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْلَةِ، يَحْمِلُهَا الرَّاعِي، وَلَا تَأْخُذُهَا وَلَا تَأْخُذُ الْأَكُولَةَ، وَلَا الرُّبَّى وَلَا الْمَاخِضَ وَلَا فَحْلَ الْغَنَمِ، وَتَأْخُذُ الْجَذَعَةَ وَالثَّنِيَّةَ وَذَلِكَ عَدْلٌ بَيْنَ غِذَاءِ الْغَنَمِ وَخِيَارِهِ.
حضرت سفیان بن عبداللہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے متصدق (یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والا) کر کے بھیجا، تو وہ بکریوں میں بچے کو بھی شمار کرتے تھے، لوگوں نے کہا: تم بچوں کو شمار میں داخل کرتے ہو لیکن بچہ نہیں لیتے ہو، تو جب آئے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس، بیان کیا اُن سے یہ امر، تو کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے: ہاں ہم گنتے ہیں بچوں کو بلکہ اس بچے کو جس کو چرواہا اٹھا کر چلتا ہے، لیکن نہیں لیتے اس کو نہ موٹی بکری کو جو کھانے کے واسطے موٹی کی جائے
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7397، 7398، 7410، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6806، 6808، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10079، والطبراني فى "الكبير"، 6395 امام نوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔، شركة الحروف نمبر: 551، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»