تخریج: [ابن ماجه 85] تحقیق الحدیث: ابن ماجہ والی روایت کی سند حسن ہے۔
اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔
[المسند 2؍178] بوصیری نے زوائد میں کہا ہے:
«هذا إسناد صحيح» ابن ماجہ والی روایت کی سند کا متن یہ ہے:
(سیدنا) عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور وہ (صحابہ) تقدیر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ گویا غصے کی وجہ سے آپ کے چہرے پر انار نچوڑ دیا گیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے؟ کیا تم اس لئے پیدا کئے گئے ہو؟ تم بعض قرآن کو بعض سے ٹکرا رہے ہو۔ تم سے پہلی امتیں اس وجہ سے (بھی) ہلاک ہوئی ہیں۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کبھی یہ پسند نہیں کیا کہ میں آپ کی کسی مجلس میں پیچھے رہوں سوائے اس مجلس کے یعنی کاش میں اس مجلس میں نہ ہوتا۔
تنبیہ: اس روایت کے راوی عمرو بن شعیب بالاتفاق ثقہ تابعی ہیں۔ جمہور محدثین کے نزدیک
«عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» والی سند صحیح، حسن اور حجت ہوتی ہے۔ دیکھئے: فتاویٰ ابن تیمیہ
[18؍8] تہذیب السنن لابن القیم
[6؍374] الترغیب والترہیب
[875/4] نصب الرایہ 58/1] معارف السنن للبنوری الدیوبندی
[315/3] محاسن الاصطلاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للبلقینی
[ص481] اور راقم الحروف کی کتاب الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریتہ
[ص 37-34] ↰ عبدالرشید نعمانی دیوبند تقلیدی لکھتے ہیں:
اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو حجت مانتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔
[ابن ماجه اور علم حديث ص151] ↰ جمہور محدثین کی اس توثیق کے مقابلے میں بعض لوگوں کا اس سلسلہ سند پر جرح کرنا مردود ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ تقدیر کے بارے میں اختلاف کرنا اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرنا ممنوع ہے۔
➋ عقیدہ تقدیر پر ایمان واجب ہے اور کریدنے والے سوالات سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
➌ کتاب و سنت کے منافی کاموں پر غصے کا اظہار بالکل صحیح بلکہ شان ایمان ہے۔
➍ قرآن کو قرآن سے ٹکرانا
(اور حدیث کو حدیث یا قرآن سے ٹکرانا) غلط و باطل ہے۔
➎ اختلاف برائے اختلاف جس میں اصلاح کی غرض ہو نہ مقصود علم تو ایسا اختلاف ہلاکت کے اسباب میں سے ہے۔